Ayats Found (6)
Surah 15 : Ayat 22
وَأَرْسَلْنَا ٱلرِّيَـٰحَ لَوَٲقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَسْقَيْنَـٰكُمُوهُ وَمَآ أَنتُمْ لَهُۥ بِخَـٰزِنِينَ
بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اُس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں اِس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو
Surah 25 : Ayat 48
وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً طَهُورًا
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے پھر آسمان سے پاک1 پانی نازل کرتا ہے
1 | یعنی ایسا پانی جو ہر طرح کی گندگیوں سے بھی پاک ہوتا ہے اور ہر طرح کے زہریلے مادوں اور جراثیم سے بھی پاک ۔ جس کی بدولت نجاستیں دھلتی ہیں اور انسان ، حیوان ، نباتات ، سب کو زندگی بخشنے والا جوہر خالص بہم پہنچتا ہے |
Surah 25 : Ayat 50
وَلَقَدْ صَرَّفْنَـٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُواْ فَأَبَىٰٓ أَكْثَرُ ٱلنَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں1 تاکہ وہ کچھ سبق لیں، مگر اکثر لوگ کفر اور ناشکری کے سوا کوئی دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں2
2 | اگر پہلے رخ (یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نۓ انداز سے پے در پے ان کی نگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے ۔ نہ حق و صداقت کو مان کر دیتے ہیں ، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں ، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے ۔ دوسرے رُخ (یعنی آخرت کی دلیل کے نقطہ نظر) سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ان کے سامنے گرمی و خشکی سے بے شمار مخلوقات پر موت طاری ہونے اور پھر برسات کی برکت سے مردہ نباتات و حشرات کے جی اٹھنے کا ڈراما ہوتا رہتا ہے ، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی یہ بے وقوف س زندگی بعد موت کو ناممکن ہی کہتے چلے جاتے ہیں ۔ بار بار انہیں اس صریح نشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ، مگر کفر و انکار کا جمود ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتا ، نعمت عقل و بینائی کا کفران ہے کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا، اور احسان تذکیر و تعلیم کی ناشکری ہے کہ برابر ہوئے چلی جاتی ہے ۔ اگر تیسرے رُخ(یعنی خشک سالی سے جاہلیت کی اور باران رحمت سے وحی و نبوت کی تشبیہ ) کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دوران میں بار بار یہ منظر سامنے آتا رہا ہے کہ جب کبھی دنیا نبی اور کتاب الہٰی کے فیض سے محروم ہوئی انسانیت بنجر ہو گئی اور فکر و اخلاق کی زمین میں خار دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اُگا ۔ اور جب کبھی وحی و رسالت کا آبِ حیات اس سر زمین کو بہم پہنچ گیا، گلشن انسانیت لہلہا اُٹھا ۔ جہالت و جاہلیت کی جگہ علم نے لی۔ ظلم و طغیان کی جگہ انصاف قائم ہوا ۔ فسق و فجور کی جگہ اخلاقی فضائل کے پھول کھلے ۔ جس گوشے میں جتنا بھی اس کا فیض پہنچا، شر کم ہوا اور خیر میں اضافہ ہوا۔ انبیاء کی آمد ہمیشہ ایک خوشگوار اور فائدہ بخش فکری و اخلاقی انقلاب ہی کی موجب ہوئی ہے ، کبھی اس سے برے نتائج رو نما نہیں ہوئے ۔ اور انبیاء کی ہدایت سے محروم یا منحرف ہو کر ہمیشہ انسانیت نے نقصان ہی اٹھایا ہے ، کبھی اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ یہ منظر تاریخ بھی بار بار دکھاتی ہے اور قرآن بھی اس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے ، مگر لوگ پھر بھی سبق نہیں لیتے ۔ ایک مجرب حقیقت ہے جس کی صداقت پر ہزارہا برس کے انسانی تجربے کی مہر ثبت ہو چکی ہے ، مگر اس کا انکار کیا جا رہا ہے ۔ اور آج خدا نے نبی اور کتاب کی نعمت سے جس بستی کو نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹی ناشکری کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ |
1 | اصل الفاظ ہیں لَقَدْ صَرَّفْنَا ہُ ۔ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ بارش کے اس مضمون کو ہم نے بار بار قرآن میں بیان کر کے حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہم بار بار گرمی و خشکی کے ، موسمی ہواؤں اور گھٹاؤں کے ، اور برسات اور اس سے رونما ہونے والی رونق حیات کے کرشمے ان کو دکھاتے رہتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ ہم بارش کو گردش دیتے رہتے ہیں ۔ یعنی ہمیشہ ہر جگہ یکساں بارش نہیں ہوتی بلکہ کبھی کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے ، کبھی کہیں کم بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں مناسب بارش ہوتی ہے ، کبھی کہیں طوفان اور سیلاب کی نوبت آ جاتی ہے ، اور ان سب حالتوں کے بے شمار مختلف نتائج ان کے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ |
Surah 30 : Ayat 46
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَن يُرْسِلَ ٱلرِّيَاحَ مُبَشِّرَٲتٍ وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِۦ وَلِتَجْرِىَ ٱلْفُلْكُ بِأَمْرِهِۦ وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے1 اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور اس غرض کے لیے کہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں2 اور تم اس کا فضل تلاش کرو3 اور اس کے شکر گزار بنو
2 | یہ ایک اورقسم کی ہواؤں کاذکرہےجوجہازرانی میں مددگارہوتی ہیں۔قدیم زمانہ کی بادبانی کشتیوں اورجہازوں کاسفرزیادہ تربادِموافق پرمنحصرتھااوربادِ مخالف ان کےلیے تباہی کاپیش خیمہ ہوتی تھی۔اس لیےبارش لانےوالی ہواؤں کےبعدان ہواؤں کاذکرایک نعمتِ خاص کی حثییت سےکیا گیاہے۔ |
1 | یعنی بارانِ رحمت کی خوشخبری دینےکےلیے۔ |
Surah 30 : Ayat 48
ٱللَّهُ ٱلَّذِى يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُۥ فِى ٱلسَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَيَجْعَلُهُۥ كِسَفًا فَتَرَى ٱلْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَـٰلِهِۦۖ فَإِذَآ أَصَابَ بِهِۦ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦٓ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ اِن بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے
Surah 30 : Ayat 50
فَٱنظُرْ إِلَىٰٓ ءَاثَـٰرِ رَحْمَتِ ٱللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآۚ إِنَّ ذَٲلِكَ لَمُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اٹھاتا ہے1، یقیناً وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
1 | یہاں جس انداز سےنبوت اوربارش کاذکریکے بعددیگرے کیاگیا ہےاس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لیےویسی ہی رحمت ہےجیسی بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کےلیےرحمت ثابت ہوتی ہے۔جس طرح آسمانی بارش کے نزول سےمردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہےاوراس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں،اسی طرح آسمانی وحی کانزول اخلاق وروحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کوجِلااُٹھاتاہےاوراس میں فضائل ومحامد کےگلزارلہلہانے شروع ہوجاتے ہیں۔یہ کفار کی اپنی بدقسمتی ہی کہ خداکی طرف سےیہ نعمت جب ان کےہاں آتی ہےتووہ اس کاکفران کرتے ہیں اوراس کو اپنے لیےمثردہٴرحمت سمجھنے کےبجائے پیامِ موت سمجھ لیتے ہیں۔ |