Ayats Found (1)
Surah 12 : Ayat 79
قَالَ مَعَاذَ ٱللَّهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَـٰعَنَا عِندَهُۥٓ إِنَّآ إِذًا لَّظَـٰلِمُونَ
یوسفؑ نے کہا 1"پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے"
1 | احتیاط ملاحظہ ہو کہ ’’چور‘‘ نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جس کے پاس ہم نے مال پایا ہے اسی کو اصطلاح شرع میں ’’توریہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی حقیقت پر پردہ ڈالنے یا اُمر واقعہ کو چھپانا۔ جب کسی مظلوم کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظلمہ کو دفع کرنے کی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کہی جائے یا کوئی خلاف حقیقت جبلہ کیا جائے تو ایسی صورت میں ایک پرہیز گار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جاسکے۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے، بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دور کرناہو۔ اب دیکھیے کہ اس سارے معاملہ میں حضرت یوسفؑ نے کس طرح جائز توریہ کی شرائط پوری کی ہیں، بھائی کی ضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہا کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ۔ پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لائے تو خاموشی کے ساتھ اُٹھ کر تلاشی لے لی۔ پھر اب جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے تو اس کے جواب میں بھی اُنہی کی بات اُن پر اُلٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان سے ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھے لیتے ہیں،دوسرے کو کیسے اس کی جگہ رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبیﷺ کے غزوات میں بھی ملتی ہیں، اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقاً معیوب نہیں کہا جا سکتا۔ |