Ayats Found (3)
Surah 54 : Ayat 37
وَلَقَدْ رَٲوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِۦ فَطَمَسْنَآ أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُواْ عَذَابِى وَنُذُرِ
پھر انہوں نے اُسے اپنے مہمانوں کی حفاظت سے باز رکھنے کی کوشش کی آخر کار ہم نے اُن کی آنکھیں موند دیں کہ چکھو اب میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزا1
1 | اس قصے کی تفصیلات سورہ ہود (آیات 77 تا 83 ) اور سورہ حجر(آیات 61 تا 74) میں گزر چکی ہیں ۔ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ فرمایا تو چند فرشتوں کو نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط کے ہاں مہمان آۓ ہیں تو وہ ان کے گھر پر چڑھ دوڑے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بد کاری کے لیے ان کے حوالہ کر دیں ۔ حضرت لوط نے ان کی بے انتہا منت سماجت کی کہ وہ اس ذلیل حرکت سے باز رہیں ۔ مگر وہ نہ مانے اور گھر میں گھس کر زبر دستی مہمانوں کو نکال لینے کی کوشش کی۔ اس آخری مرحلے پر یکایک ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ پھر فرشتوں نےحضرت لوط سے کہا کہ وہ اور ان کے گھر والے صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں ، اور ان کے نکلتے ہی اس قوم پر ایک ہولناک عذاب نازل ہو گیا۔ بائیبل میں بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ تب وہ اس مرد یعنی لوط پر پل پڑے اور نزدیک آۓ تاکہ کواڑ توڑ ڈالیں ۔ لیکن ان مردوں (یعنی فرشتوں ) نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لوط کو اپنے پاس گھر میں کھینچ لیا اور دروازہ بند کر دیا اور ان مردوں کو جو گھر کے دروازے پر تھے ، کیا چھوٹے کیا بڑے ، اندھا کردیا، سو وہ دروازہ ڈھونڈھتے ڈھونڈتے تھک گۓ‘‘ (پیدائش ، 19:9۔11) |
Surah 27 : Ayat 35
وَإِنِّى مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةُۢ بِمَ يَرْجِعُ ٱلْمُرْسَلُونَ
میں اِن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ میرے ایلچی کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں"
Surah 27 : Ayat 36
فَلَمَّا جَآءَ سُلَيْمَـٰنَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَآ ءَاتَـٰنِۦَ ٱللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّآ ءَاتَـٰكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ
جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا "کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے1 تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے
1 | اس جملے سے مقصود اظہار فخروتکبر نہیں ہے۔ اصل مدعایہ ہے کہ مجھے تمہارامال مطلوب نہیں ہے بلکہ تمہارا ایمان مطلوب ہے۔ یا پھر کم سے کم جو چیز میں چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم ایک صالح نظام کے تابع ہوجاؤ۔ اگر تم ان دونوں باتوں میں سے کسی کے لیے راضی نہیں ہوتو میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ مال ودولت کی رشوت لے کر تمہیں اس شرک اور اس فاسد نظام زندگی کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دوں۔ مجھے میرے رب نے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے کہ میں تمہارے مال کا لالچ کروں۔ |