Ayats Found (3)
Surah 11 : Ayat 69
وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَآ إِبْرَٲهِيمَ بِٱلْبُشْرَىٰ قَالُواْ سَلَـٰمًاۖ قَالَ سَلَـٰمٌۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا1
1 | اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے ہاں انسانی صورت میں پہنچے تھے اور ابتداءً انہوں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے خیال کیا کہ یہ کوئی اجنبی مہمان ہیں اور ان کے آتے ہی فورًا ان کی ضیافت کا انتظا م فرمایا |
Surah 51 : Ayat 24
هَلْ أَتَـٰكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَٲهِيمَ ٱلْمُكْرَمِينَ
اے نبیؐ،1 ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے؟2
2 | یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پرپہلے گزر چکا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 353 تا 355، 509 تا 511۔ جلد سوم، ص 696 |
1 | اب یہاں سے رکوع دوم کے اختتام تک انبیاء علیہم السلام اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے در پے مختصر اشارات کیے گۓ ہیں جن سے دو باتیں ذہن نشین کرانی مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ میں خدا کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکو کاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی(Physical Law) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون (Moral Law) اس کے ساتھ کر فرما ہے۔ اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو جسم طبیعی میں رہ کر اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جاۓ بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جاۓ، تو یہ بات بجاۓ خود اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک وقت ایسا ضرور آنا چاہیے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہو جانے کے بعد خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح برآمد ہوں، کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات جو ان تاریخی اشارات سے ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے بھی ابنیاء علیہم السلام کی بات نہ مانی اور پانی زندگی کا پورا رویہ توحید،رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم کیا وہ آخر کار ہلاکت کی مستحق ہو کر رہیں۔ تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعہ دیا گیا، اور اس کے مطابق انسانی اعمال کی باز پرس جو آخرت میں ہوئی ہے، سراسر مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوۓ دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے |
Surah 51 : Ayat 26
فَرَاغَ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ
پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا1، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا2 لا کر
2 | سورہ ہود میں عِجْلٍ حَنِیْذٍ (بھنے ہوۓ بچھڑے ) کے الفاظ ہیں۔ یہاں بتایا گیا کہ آپ نے خوب چھانٹ کر موٹا تازہ بچھڑا بھنوایا تھا |
1 | یعنی اپنے مہمانوں سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہوں بلکہ انہیں بٹھا کر خاموشی سے ضیافت کا انتظام کرنے چلے گۓ، تاکہ مہمان تکلفاً یہ نہ کہیں کہ اس تکلیف کی کیا حاجت ہے |