Ayats Found (2)
Surah 20 : Ayat 114
فَتَعَـٰلَى ٱللَّهُ ٱلْمَلِكُ ٱلْحَقُّۗ وَلَا تَعْجَلْ بِٱلْقُرْءَانِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰٓ إِلَيْكَ وَحْيُهُۥۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا
پس بالا و برتر ہے اللہ، پادشاہ حقیقی1 اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر2
2 | فَتَعٰلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ، پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوۓ فرشتہ اللہ تعالٰی کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایک بات پر خبر دار کرتا ہے جو وحی نازل کرنے کے دوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب نہ سمجھا گیا، اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ ہو رہی ہو گی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی وصول کرنے کا صحیح طریقہ سمجھا یا جاۓ، اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جاۓ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ طٰہٰ کا یہ حصہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ میں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ابھی اخذ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالٰی کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہوا تھا اور اس پر سلسلۂ کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ : لَا تُحَرِّ کْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ، فَاِذَا قَرَأ نٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ۔ ’’اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اسے یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘ سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھولیں گے نہیں، : سَنْقْر ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیات آپ پر طاری ہونی بند ہو گئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔ |
1 | اس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوۓ ارشاد فرماۓ جاتے ہیں، اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام خاتمہ اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا پر ہو۔ انداز بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور : وَلَقَدْ عَھِدْ نَآ اِلٰیٓ اٰدَمَ۔ سے دوسری تقریر شروع ہوتی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہوں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم الہٰی کے تحت ان کو ایک سورہ میں جمع کر دیا ہو گا۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے۔ |
Surah 23 : Ayat 116
فَتَعَـٰلَى ٱللَّهُ ٱلْمَلِكُ ٱلْحَقُّۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْكَرِيمِ
پس بالا و برتر ہے1 اللہ، پادشاہ حقیقی، کوئی خدا اُس کے سوا نہیں، مالک ہے عرش بزرگ کا
1 | یعنی بالا و بر تر ہے اس سے کہ فعل عبث کا ارتکاب اس سے ہو، اور بالا و برتر ہے اس سے کہ اس کے بندے اور مملوک اس کی خدائی میں اس کے شریک ہوں |