Ayats Found (4)
Surah 10 : Ayat 77
قَالَ مُوسَىٰٓ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَكُمْۖ أَسِحْرٌ هَـٰذَا وَلَا يُفْلِحُ ٱلسَّـٰحِرُونَ
موسیٰؑ نے کہا: “تم حق کو یہ کہتے ہو جبکہ وہ تمہارے سامنے آگیا؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادو گر فلاح نہیں پایا کرتے1"
1 | مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اِسے جادو قرار دے دیا، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارتِ نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو، پھر جب اُسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا،چیخ چیخ کر درازی عمرواقبال کی دعائیں دیتا، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مِل جائے۔ اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جادو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔ |
Surah 20 : Ayat 66
قَالَ بَلْ أَلْقُواْۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ
موسیٰؑ نے کہا "نہیں، تم ہی پھینکو" یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے موسیٰؑ کو دَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں1
1 | سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ : فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُؤٓا اَعَیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْھَبُوْ ھُمْ، ’’جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا‘‘ (آیت 116)۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا، خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گۓ تھے۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔ |
Surah 20 : Ayat 69
وَأَلْقِ مَا فِى يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوٓاْۖ إِنَّمَا صَنَعُواْ كَيْدُ سَـٰحِرٍۖ وَلَا يُفْلِحُ ٱلسَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ
پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے1 یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے"
1 | ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا وہ ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے ان سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اس جادو کے اثر کو باطل کر دیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ سورہ اعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا یَاْ فِکُوْنَ، ’’جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے اس کو وہ نگلے جا رہا تھا‘‘۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا، ’’وہ نگل جاۓ گا اس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے‘‘ اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی، لاٹھی اور ہر رسی،رسی بن کر پڑی رہ گئی۔ |
Surah 113 : Ayat 4
وَمِن شَرِّ ٱلنَّفَّـٰثَـٰتِ فِى ٱلْعُقَدِ
اور گرہوں میں پھونکنے والوں (یا والیوں) کے شر سے1
1 | اصل الفاظ ہیں نَفَّا ثَاتِ فِی الْعُقَدِ ۔‘‘۔ عُقَد جمع ہے عُقْدہ کی جس کے معنی گرہ کے ہیں، جیسی مثلاً تا گے یا رسی میں ڈالی جاتی ہے۔ نَفْث کے معنی پھونکنے کے ہیں۔ نَفَّا ثَات جمع ہے نَفَّا ثَہ کی جو کو اگر علامہ کی طرح سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والے مرد ہوں گے، اور اگر مؤنث کا صیغہ سمجھا جائے تو مرد بہت پھونکنے والی عورتیں بھی ہو سکتی ہیں، اور نفوس یا جماعتیں بھی، کیونکہ عربی میں نفس اور جماعت دونوں مؤنث ہیں۔ گرہ میں پھونکنے کا لفظ اکثر، بلکہ تمام تر مفسرین کے نزدیک جادو کے لیے استعارہ ہے، کیونکہ جادوگر عموماً کسی ڈور یا تاگے میں گرہ دیتے اور اس پر پھونکتے جاتے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں طلوعِ فجر کے رب کی پناہ مانگتا ہوں جادوگر یا جادوگرنیوں کے شر سے۔ اِ س مفہوم کی تائید وہ روایات بھی کرتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب جادو ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام نے آکر حضورؐ کو معوِّذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اور معوِّذتین میں یہی ایک فقرہ ہے جو براہِ راست جادو سے تعلق رکھتا ہے۔ ابو مسلم اصفہانی اور زمخْشَری نے نَفَّاثات فی العقد کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد عورتوں کی مکاری، اور مردوں کے عزائم اور آراء اور خیالات پر اُن کی اثر اندازی ہے اور اس کو جادو گری سے تشبیہ دی گئی ہے ، کیونکہ عورتوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آدمی کا وہ حال ہو جاتا ہے گویا اُس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ پرلطف ہے، لیکن اُس تفسیر کے خلاف ہے جو سلف سے مسلم چلی آتی ہے۔ اور اُن حالات سے بھی یہ مطابقت نہیں رکھتی جن میں معوِّ ذتین نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر چکے ہیں۔ جادو کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں چونکہ دوسرے شخص پر بُرا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواحِ خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے اس لیے قرآن میں اسے کفر کہا گیا ہے : وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْر، ۔‘‘،”سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے“(البقرہ۔102)۔ لیکن اگر اُس میں کوئی کلمہ کفر یا کوئی فعلِ شرک نہ بھی ہو تو وہ بالاتفاق حرا م ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سات ایسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کی آخرت کو برباد کردینے والے ہیں۔ بِخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا سات غارت گر چیزوں سے پر ہیز کرو۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا خدا کے ساتھ کوئی شریک کرنا، جادو، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد میں دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کا بھاگ نکلنا، اور بھولی بھالی عَفیف مومن عورتوں پر زنا کی تُہمت لگانا |