Ayats Found (4)
Surah 7 : Ayat 131
فَإِذَا جَآءَتْهُمُ ٱلْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَـٰذِهِۦۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُۥٓۗ أَلَآ إِنَّمَا طَـٰٓئِرُهُمْ عِندَ ٱللَّهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں، اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بد ٹھیراتے، حالانکہ در حقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے
Surah 27 : Ayat 47
قَالُواْ ٱطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَۚ قَالَ طَـٰٓئِرُكُمْ عِندَ ٱللَّهِۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
انہوں نے کہا "ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بد شگونی کا نشان پایا ہے"1 صالحؑ نے جواب دیا "“تمہارے نیک و بد شگون کا سر رشتہ تو اللہ کے پاس ہے اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے"2
2 | یعنی بات وہ نہیں ہے جوتم نے سمجھ رکھی ہے۔ اصل معاملہ جسے اب تک تم نہیں سمجھنے ہو یہ ہے کہ میرے آنے سے تمہارا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ جب تک میں نہ آیا تھا، تم اپنی جہالت میں ایک ڈگر پر چلے جارہے تھے حق اورباطل کا کو کھلا امتیاز سامنے نہ تھا۔ کھرے اورکھوٹے کہ پرکھ کا کوئی معیار نہ تھا۔ بدتر سے بدتر لوگ اورنچے ہورہے تھے، اوراچھی سے اچھی صلاحیتوں کے لوگ خاک میںملے جارہے تھے۔ مگر اب ایک کسوٹی آگئی ہے جس پر تم سب جانچے اورپرکھے جاؤ گے۔ اب بیچ میدان میں ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے جو ہرایک کواس کے وزن کے لحاظ سے توملے۔ اب حق اور باطل آمنے سامنے موجود ہیں۔ جو حق کوقبول کرے گاوہ بھاری اترے گا خواہ آج تک اس کی کوڑی بھر بھی قیمت نہ رہی ہو۔اور جو باطل پرجمے گا اس کا وزن رتی بھر نہ رہے گا چاہے وہ آج تک امیر الامراء ہی بنارہا ہو۔ اب فیصلہ اس پرنہیں ہوگا کہ کون کس خانداب کا ہے اورکس کے زرائع ووسائل کتنے ہیں، اورکون کتنا زور رکھتا ہے، بلکہ اس پر ہوگا کہ کون سیدھی طرح صداقت کو قبول کرتا ہے اورکون جھوٹ کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کردیتا ہے۔ |
1 | ان کے اس قول کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ تحریک ہمارے لیے سخت منحوس ثابت ہوئی ہے، جب سے تم نے اورتمہارے ساتھیوں نے دینِ آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل نازل ہوتی رہتی ہے، کیونکہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہوگئے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ قول اکثر اُن مشرک قوموں کے اقوال سے مشابہ ہے جو اپنے انبیاء کو منحوس قرار دیتی تھیں۔ چنانچہ سورہ یٰسین میں ایک قوم کازکر آتا ہے کہ اس نے اپنے انبیاء سے کہاانّا تطیّرنا بکم ’’ ہم نے تم کو منحوس پایا ہے‘‘ (آیت ۱۸)۔ یہی بات فرعون کی قوم حضرت موسٰیؑ کے متعلق کہتی تھی: فاِذِاجَآءَتْھُم الْحَسَنَۃُ قَالُوآلنَاھٰذِھ واِنْ تُصِبھُمْ سَیِئۃٌ یَّطَّیَّرُوْ ابِمُوسٰی و من مّعھُ۔ ’’ جب ان پرکوئی اچھا وقت آتا تو کہتے کہ ہمارے لیے یہی اورجب کوئی مصیبت آجاتی تو موسٰیؑ اوران کے ساتھیوں کی نحوست کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے‘‘(الاعراف، آیت ۱۳۰) قریب قریب ایسی باتیں مکہ میں نبی ﷺ کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں۔ دوسرا مطلب اس قول کا یہ ہے کہ تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک دین پرمجتمع تھی۔ تم ایسے سبز قدم آئے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اوربیٹا باپ سے کٹ گیا۔ اس طرح قوم کے اندر ایک نئی قوم اٹھ کھڑی ہونے کا انجام ہمیں اچھا نظر نہیں آتا۔ یہی وہ الزام تھا جسے محمد ﷺ کے مخالفین آپ کے خلاف باربار پیش کرتے تھے۔ آپ کی دعوت کا آغاز ہوتے ہی سرداران قریش کا جو وفد ابو طالب کے پاس گیا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ’’ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردو جس نے تمہارے دین اور تمہارے باپ دادا کے دین کی مخالفت کی ہے اورتمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اورساری قوم کو بے وقوف قراردیا ہے ‘‘ (ابن ہشام جلد اول،ص ۲۸۵)۔ حج کے موقعہ پر جب کفار مکہ کواندیشہ ہُوا کہ باہر کے زائرین آکر کہیں محمد ﷺ کی دعوت سے متاثر نہ ہوجائیں تو انہوں نے باہم مشورہ کرنے کے بعدیہی طے کیا کہ قبائک عرب سے کہا جائے:’’ یہ شخص جادوگر ہے، اس کے جادو کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے، ہیوی شوہر سے، اورآدمی اپنے سارے خاندان سے کٹ جاتا ہے ‘‘(ابن ہشام جلد اول،ص ۲۸۹) |
Surah 36 : Ayat 18
قَالُوٓاْ إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُواْ لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ
بستی والے کہنے لگے 1"ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے"
1 | اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کی ہیں ان کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْ اھٰذِہ مِنْ عِنْدِ کَ، ’’اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے‘‘ (النساء:77)۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں۔ قوم تمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ، ’’ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے۔‘‘ (النمل : 47)اور یہی رویّہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَ ا جَآءَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَا لُوْ الَنَا ھٰذِہ وَاِنْتُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَیَّرُ وْ بِمُسٰی وَمَنْ مُعَہٗ۔ ’’جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے‘‘ (الا عراف: 130)۔ |
Surah 36 : Ayat 19
قَالُواْ طَـٰٓئِرُكُم مَّعَكُمْۚ أَئِن ذُكِّرْتُمۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
رسولوں نے جواب دیا 1"تمہاری فال بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے کیا یہ باتیں تم اِس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو2"
2 | یعنی دراصل تم بھلائی سے بھاگنا چاہتے ہو اور ہدایت کے بجائے گمراہی تمہیں پسند ہے ، اس لیے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے اوہام و خرافات کے سہارے یہ بہانہ بازیاں کر رہے ہو |
1 | یعنی کوئی کسی کے لیے منحوس نہیں ہے۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی ہی گردن میں لٹکا ہوا ہے۔ بُرائی دیکھتا ہے تو اپنے نصیب کی دیکھتا ہے اور بھلائی دیکھتا تو ہو بھی اس کے اپنے ہی نصیب کی ہوتی ہے۔ وَکُلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہ، ’’ہر شخص کا پروانۂ خیروشر ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے‘‘ (بنی اسرائیل : 13)۔ |