Ayats Found (1)
Surah 12 : Ayat 67
وَقَالَ يَـٰبَنِىَّ لَا تَدْخُلُواْ مِنۢ بَابٍ وَٲحِدٍ وَٱدْخُلُواْ مِنْ أَبْوَٲبٍ مُّتَفَرِّقَةٍۖ وَمَآ أُغْنِى عَنكُم مِّنَ ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۖ إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُتَوَكِّلُونَ
پھر اس نے کہا 1"میرے بچو، مصر کے دارالسطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے"
1 | اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسفؑ کے بعد ان کے بھائی کو بھیجتے وقت حضرت یعقوبؑ کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہوگی۔ گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبروتسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا۔ مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی۔ طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں اسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ یہ احتیاطی مشورہ کہ مصر کے دارالسطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں، اُن سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے جو اس وقت پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے۔ حضرت یعقوبؑ کو اندیشہ ہوا ہوگا کہ اس قحط کے زمانہ میں اگر یہ لوگ ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انہیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوُٹ مار کی غرض سے آئے ہیں۔ پچھلی آیت میں ٖحضرت یعقوبؑ کا یہ ارشاد کہ ’’ اِلا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشورہ سیاسی اسباب کی بنا پر تھا۔ |