Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 189
۞ يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِۖ قُلْ هِىَ مَوَٲقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّۗ وَلَيْسَ ٱلْبِرُّ بِأَن تَأْتُواْ ٱلْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَأْتُواْ ٱلْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَٲبِهَاۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو: یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعین کی اور حج کی علامتیں ہیں1 نیز ان سے کہو: یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے2
2 | منجملہ ان توہّم پرستانہ رسموں کے ، جو عرب میں رائج تھیں، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے، بلکہ پیچھے سے دیوار کُود کر یا دیوار میں کھڑکی سی بنا کر داخل ہوتے تھے۔ نیز سفر سے واپس آکر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے، بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے۔ اُن بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں ، جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے |
1 | چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دُنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہلِ عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا بُرے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی پیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے، یہ سب باتیں دُوسری جاہل قوموں کی طرح اہلِ عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں اُن میں رائج تھیں۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کی گئی۔ جواب میں اللہ تعالٰی نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے ، جو آسمان پر نمودار ہو کر دُنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرما یا کہ عرب کی مذہبی، تمدّنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے۔ اِن مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے |
Surah 5 : Ayat 90
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلْخَمْرُ وَٱلْمَيْسِرُ وَٱلْأَنصَابُ وَٱلْأَزْلَـٰمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ ٱلشَّيْطَـٰنِ فَٱجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے1، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی2
2 | اِس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی ۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دُوسرے کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر قربانی اور نذر و نیاز چڑھانے کے لیے مخصُوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مؤ خّر الذکر تینوں چیزوں کی ضرورت تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے: شراب کی حُرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے ، جو سُورۂ بقرہ آیت ۲۱۹ اور سُورۂ نساء آیت ۴۳ میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبّہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے ، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حکم آجائے ، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں۔ اس کے کچھ مدٔت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کر ایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں ، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی ۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم یہُودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں؟ آپ ؐ نے فرمایا” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اُس نے اِسے تحفۃً دینے سے بھی منع کر دیا ہے“۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم شراب کو سِرکے میں کیوں نہ تبدیل کر دیں؟ آپ ؐ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ” نہیں، اسے بہا دو“۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے؟ فرمایا” نہیں ، وہ دوا ء نہیں ہے بلکہ بیماری ہے“۔ ایک اَور صاحب نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ؐ نے پُوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں مانیں گے ۔ فرمایا” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو“۔ ابنِ عمر ؓ کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مُبتا عھا و عاصر ھا و معتصر ھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ۔” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھوکر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو“۔ ایک اَور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دستر خوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو ۔ ابتداءً آپ نے اُن برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی ۔ بعد میں جب شراب کی حُرمت کا حکم پُوری طرح نافذ ہو گیا تب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اُٹھا دی۔ (خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجاز اً گیہُوں ، جَو ، کِشمِش،کھجُور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حُرمت کے اس حکم کو تمام اُن چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں حضُور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔” ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہرنشہ آور چیز حرام ہے“۔کل شراب ٍ اسکر فھو حرام۔” ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے“۔وانا انھی عن کل مسکرٍ۔”اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں“۔ حضرت عمر ؓ نے جُمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ الخمر ما خامر العقل ۔”خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے“۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اُصُول بیان فرمایا کہ ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام ۔” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر ے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے“۔ اور ما اسکر الفرق منہ مفلٔ الکف منہ حرام ۔” جس چیز کا ایک پُورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا ایک چُلّو پینا بھی حرام ہے“۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اِس جُرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اُسے جُوتے ، لات، مُکّے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجُور کے سَنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ۴۰ ضربیں آپ ؐ کے زمانہ میں اس جُرم پر لگائی گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں ۴۰ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جُرم سے باز نہیں آتے تو اُنہوں نے صحابۂ کرام کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعیؒ بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ؒ ابن حنبل اور ایک دُوسری روایت کے مطابق امام شافعی ؒ ۴۰ کوڑوں کو قائل ہیں، اور حضرت علی ؓ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔ شریعت کی رُو سے یہ بات حکومتِ اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دوکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دُوسرے موقع پر ایک پُورا گاؤں حضرت عمر ؓ کے حکم سے اِس قصُور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا |
1 | آستانوں اور پانسوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۱۲ و ۱۴۔ اِس سلسلہ میں جُوئے کی تشریح بھی حاشیہ نمبر ۱۴ میں مِل جائے گی۔ اگرچہ پانسے ( جُوئے) ہی کی ایک قسم ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ عربی زبان میں ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اُس صُورت کو کہتے ہیں کہ جو مشرکانہ عقائد اور وہمیّات سے آلودہ ہو۔ اور مَیسِر کا اطلاق اُن کھیلوں اور اُن کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی اُمُور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور تقسیمِ اموال و اشیاء کا ذریعہ بنایا جاتا ہے |
Surah 5 : Ayat 103
مَا جَعَلَ ٱللَّهُ مِنۢ بَحِيرَةٍ وَلَا سَآئِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍۙ وَلَـٰكِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام 1مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (کہ ایسے وہمیات کو مان رہے ہیں)
1 | جس طرح ہمارے ملک میں گائے، بیل اور بکرے خدا کے نام پر یا کسی بُت یا قبر یا دیوتا یا پیر کے نام پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ، اور ان سے کوئی خدمت لینا یا انہیں ذبح کرنا یا کسی طور پر ان سے فائدہ اُٹھانا حرام سمجھا جاتا ہے، اسی طرح زمانۂ جاہلیّت میں اہلِ عرب بھی مختلف طریقوں سے جانوروں کو پُن کرکے چھوڑ دیا کرتے تھے اور ان طریقوں سے چھوڑے ہوئے جانوروں کے الگ الگ نام رکھتے تھے۔ بحیرہ: اُس اُونٹنی کو کہتے تھے جو پانچ دفعہ بچّے جَن چکی ہو اور آخری بار اس کے ہاں نر بچّہ ہوا ہو۔ اس کا کان چیر کر اُسے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پھرنہ کوئی اس پر سوار ہوتا، نہ اُس کا دُودھ پیا جاتا، نہ اُسے ذبح کیا جاتا، نہ اس کا اُون اتارا جاتا۔ اُسے حق تھا کہ جس کھیت اورجس چراگاہ میں چاہے چرے اور جس گھاٹ سے چاہے پانی پیے۔ سائبہ: اُس اُونٹ یا اُونٹنی کو کہتے تھے جسے کسی مَنّت کے پُورا ہو نے یا کسی بیماری سے شفا پانے یا کسی خطرے سے بچ جانے پر بطور شکرانہ کے پُن کر دیا گیا ہو۔ نیز جس اُونٹنی نے دس مرتبہ بچّے دیے ہوں اور ہر بار مادہ ہی جنی ہو اُسے بھی آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وصیلہ: اگر بکری کا پہلا بچّہ نر ہوتا تو وہ خداؤں کے نام پر ذبح کر دیا جاتا، اور اگر وہ پہلی بار مادہ جنتی تو اسے اپنے لیے رکھ لیا جاتا تھا۔ لیکن اگر نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے تو نر کو ذبح کر نے کے بجائے یونہی خداؤں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا اوراس کا نام وصیلہ تھا۔ حام : اگر کسی اُونٹ کا پوتا سواری دینے کے قابل ہو جاتا تو اس بُوڑھے اُونٹ کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نیز اگر کسی اُونٹ کے نطفہ سے دس بچّے پیدا ہو جاتے تو اسے بھی آزادی مِل جاتی |
Surah 6 : Ayat 71
قُلْ أَنَدْعُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰٓ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَٮٰنَا ٱللَّهُ كَٱلَّذِى ٱسْتَهْوَتْهُ ٱلشَّيَـٰطِينُ فِى ٱلْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُۥٓ أَصْحَـٰبٌ يَدْعُونَهُۥٓ إِلَى ٱلْهُدَى ٱئْتِنَاۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اے محمدؐ! ان سے پو چھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھر رہا ہو درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ اِدھر آ یہ سیدھی راہ موجود ہے؟کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دو
Surah 6 : Ayat 143
ثَمَـٰنِيَةَ أَزْوَٲجٍۖ مِّنَ ٱلضَّأْنِ ٱثْنَيْنِ وَمِنَ ٱلْمَعْزِ ٱثْنَيْنِۗ قُلْ ءَآلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ ٱلْأُنثَيَيْنِ أَمَّا ٱشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ ٱلْأُنثَيَيْنِۖ نَبِّــُٔونِى بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
یہ آٹھ نر و مادہ ہیں، دو بھیڑ کی قسم سے اور دو بکری کی قسم سے، اے محمدؐ! ان سے پوچھو کہ اللہ نے اُن کے نر حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو بھیڑوں اور بکریوں کے پیٹ میں ہوں؟ ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو1
1 | یعنی گمان و وہم یا آبائی روایات نہ پیش کرو بلکہ علم پیش کرو اگر وہ تمہارے پاس ہو |
Surah 6 : Ayat 144
وَمِنَ ٱلْإِبِلِ ٱثْنَيْنِ وَمِنَ ٱلْبَقَرِ ٱثْنَيْنِۗ قُلْ ءَآلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ ٱلْأُنثَيَيْنِ أَمَّا ٱشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ ٱلْأُنثَيَيْنِۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَآءَ إِذْ وَصَّـٰكُمُ ٱللَّهُ بِهَـٰذَاۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ ٱلنَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اسی طرح دو اونٹ کی قسم سے ہیں اور دو گائے کی قسم سے پوچھو، اِن کے نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا مادہ، یا وہ بچے جو اونٹنی اور گائے کے پیٹ میں ہوں؟1 کیا تم اُس وقت حاضر تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا حکم تمہیں دیا تھا؟ پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہ نمائی کرے یقیناً اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا
1 | یہ سوال اس تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ اُن پر خود اپنے ان توہّمات کی غیر معقولیّت واضح ہو جائے۔ یہ بات کہ ایک ہی جانور کا نر حلال ہو اور مادہ حرام، یا مادہ حلال ہو اور نر حرام، یا جانور خود حلال ہو مگر اس کا بچہ حرام، یہ صریحاً ایسی نامعقول بات ہے کہ عقلِ سلیم اِسے ماننے سے انکار کرتی ہے اور کوئی ذی عقل انسان یہ تصوّر نہیں کر سکتا کہ خدا نے ایسی لغویّات کا حکم دیا ہو گا۔ پھر جس طریقہ سے قرآن نے اہلِ عرب کو اُن کے اِن توہّمات کی غیر معقولیّت سمجھانے کی کوشش کی ہے بعینہٖ اسی طریقہ پر دُنیا کی اُن دُوسری قوموں کو بھی اُن کے توہّمات کی لغویّات پر متنبہ کیا جا سکتا ہے جن کے اندر کھانے پینے کی چیزوں میں حُرمت و حِلّت کی غیر معقول پابندیاں اور چھُوت چھات کی قیُود پائی جاتی ہیں |