Ayats Found (1)
Surah 31 : Ayat 19
وَٱقْصِدْ فِى مَشْيِكَ وَٱغْضُضْ مِن صَوْتِكَۚ إِنَّ أَنكَرَ ٱلْأَصْوَٲتِ لَصَوْتُ ٱلْحَمِيرِ
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر1، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے2
2 | ان الفاظ سےامام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اورامام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچّے کی مدّت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدّت کے اندر اگر کسی بچّے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو گی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حس میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدّت میں بچے کا دودھ چھڑا د یا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَا تُ ُرْضِعَْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَی ْنِ کَامِلَی ْنِ لِمَنْ اَرَادَاَنْ ی ُّتِمَّ ارَّضَا عَۃَ ط’’مائیں بچّوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اُس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو‘‘(آیت۲۳۳)۔ ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ ک۔ماہ ہے، اس لیے کہ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہٗ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا ط’’اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰مہینوں میں ہُوا۔‘‘ (الاحقاف ،آیت ۱۵)۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور نا جائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ |
1 | بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ’’تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر‘‘لیکن سیاقِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ دولت،اقتدار،حسن،علم،طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے۔اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کرمریل چال چلنے لگتا ہے۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو، نہ مریل پن، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔ صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکارفرمایا’’سراُٹھا کرچل، اسلام مریض نہیں ہے‘‘۔ ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ’’ظالم، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے۔‘‘ان دونوں واقعات سے معلوم ہُوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دینداری کا منشا ہرگز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کرانہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔ پوچھا انہیں کیا ہوگیا؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے)۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’عمر سید القراء تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل، حاشیہ ۴۳۔ تفسیر سورہ الفرقان، حاشیہ ۷۹)۔ |