Ayats Found (5)
Surah 3 : Ayat 73
وَلَا تُؤْمِنُوٓاْ إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ ٱلْهُدَىٰ هُدَى ٱللَّهِ أَن يُؤْتَىٰٓ أَحَدٌ مِّثْلَ مَآ أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَآجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْۗ قُلْ إِنَّ ٱلْفَضْلَ بِيَدِ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ، 1"اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمہارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجت مل جائے" اے نبیؐ! ان سے کہو کہ، "فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے وہ وسیع النظر ہے اور سب کچھ جانتا ہے2
2 | یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ کون فضل و شرف کا مستحق ہے |
1 | اصل میں لفظ”واسِع“ استعمال ہوا ہے جو بالعموم قرآن میں تین مواقع پر آیا کرتا ہے۔ ایک وہ موقع جہاں انسانوں کے کسی گروہ کی تنگ خیالی و تنگ نظری کا ذکر آتا ہے اور اُسے اس حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اللہ تمہاری طرح تنگ نظر نہیں ہے ۔ دُوسرا وہ موقع جہاں کسی کے بُخل اور تنگ دلی اور کم حوصلگی پر ملامت کرتے ہوئے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ فراخ دست ہے، تمہاری طرح بخیل نہیں ہے ۔ تیسرا وہ موقع جہاں لوگ اپنے تخیّل کی تنگی کے سبب سے اللہ کی طرف کسی قسم کی محدُود یّت منسُوب کرتے ہیں اور انھیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ غیر محدُود ہے۔(ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ، حاشیہ نمبر ١١٦) |
Surah 5 : Ayat 54
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥٓ أَذِلَّةٍ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ يُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِمٍۚ ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے1، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے2 یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے
2 | یعنی اللہ کے دین کی پَیروی کرنے میں، اُس کے احکام پر عملدرآمد کرنے میں، اور اِس دین کی رُو سے جو کچھ حق ہے اُسے حق اور جو کچھ باطل ہے اُسے باطل کہنے میں اُنہیں کوئی باک نہ ہوگا۔ کسی کی مخالفت، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دُنیا بھر میں نکّو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچّے دل سے حق جانتے ہیں |
1 | مومنوں پر نرم“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہلِ ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے۔ اُس کی ذہانت ، اُس کی ہوشیاری، اُس کی قابلیت، اُس کا رسُوخ و اثر، اُس کا مال، اُس کا جسمانی زور، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو، رحم دل، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں۔ ”کفار پر سخت“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلُوص ، اصُول کی مضبُوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخلالفینِ اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے اُن پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بِک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا |
Surah 62 : Ayat 4
ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ
اللہ زبردست اور حکیم ہے1 یہ اس کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے
1 | یعنی یہ اسی کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے کہ ایسی نا تراشیدہ امی قوم میں اس نے ایسا عظیم نبی بیدا کیا جس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے ، اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کی حامل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ کوئی بناؤٹی انسان خواہ کتنی ہی کوشش کر لیتا، یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار، دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین سے ذہین آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے ، اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کودے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر و ہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہو جاۓ۔ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ کی قدرت سے رونما ہوا ہے ، اور اللہ ہی نے اپنی حکمت کی بنا پر جس شخص، جس ملک، اور جس قوم کو چاہا ہے اس کے لیے انتخاب کیا ہے۔ اس پر اگر کسی بے وقوف کا دل دکھتا ہے تو دکھتا رہے |
Surah 57 : Ayat 21
سَابِقُوٓاْ إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۚ ذَٲلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ
دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو1 اپنے رب کی مغفرت اور اُس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے2، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے
2 | اصل الفاظ ہیں عَرْ ضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے ، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآ ءٍ عَرِیْضٍ، ’’ انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘‘ (حٰم السجدہ۔51)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے ۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ، اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَرِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ (آیت۔ 133)۔’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے ‘‘۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے ، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے ۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی، جو کچھ چاہے گا اپنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا |
1 | اصل میں لفظ سَا بِقُوْا استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض ’’دوڑو‘‘ کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیاکی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو |
Surah 57 : Ayat 29
لِّئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ ٱلْكِتَـٰبِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَىْءٍ مِّن فَضْلِ ٱللَّهِۙ وَأَنَّ ٱلْفَضْلَ بِيَدِ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ
(تم کو یہ روش اختیار کرنی چاہیے) تاکہ اہل کتاب کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے فضل پر اُن کا کوئی اجارہ نہیں ہے، اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور وہ بڑے فضل والا ہے