Ayats Found (1)
Surah 28 : Ayat 25
فَجَآءَتْهُ إِحْدَٮٰهُمَا تَمْشِى عَلَى ٱسْتِحْيَآءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِى يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَاۚ فَلَمَّا جَآءَهُۥ وَقَصَّ عَلَيْهِ ٱلْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْۖ نَجَوْتَ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ
(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی1 "میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں2" موسیٰؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا "کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالموں سے بچ نکلے ہو"
2 | یہ بات بھی انہوں نے شرم وحیا ہی کی وجہ سے انہوں نےکہی، کیونکہ ایک غیرمرد کے پاس اکیلی آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضروری تھی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی اگر عورت ذات میں مبتلا دیکھ کراس کی کوئی مدد کی ہوتو اس کابدلہ دینے کےلیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اورپھر اس بدلے کانام سن لینے کےباوجود حضرے موسٰی علیہ السلام جیسے عالی ظرف انسان کاچل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرارکی حالت میںتھے۔ بےسروسامانی کے عالم میںیکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدین تک کم ازکم آٹھ دن میںپینچے ہوں گے۔ بھوک پیاس اورسفر کی تکان سے بُرا حال ہوگا۔اورسب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیارغیر میں کوئی ٹھکانہ میسرآئے اورکوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میںرہ سکیں۔ اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سُن کے باوجود کہ اس ذراسی خدمت کا اجردینے کےلیے بلایا جارہا ہے، حضرت موسٰیؑ نے جانے میں تامل نہ کیا۔ انہوں نے خیال فرمایا ہوگا کہ خداسے ابھی ابھی جودعامیں نے مانگی ہے، اسے پوراکرنے کایہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہےاس لیے اب خواہ مخواہ خوداری کا مظاہرہ کرکے اپنے رب کے فراہم کردہ سامان میزبانی کوٹھکرانا مناسب نہیں ہے۔ |
1 | حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے: جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھالیست بسلفع من النساء دلاجۃ خرجۃ۔ ’’ وہ شرم وحیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنامنہ گھونگھٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بے باک عورتوں کی طرح درانہ نہین چلی آئی جوہرطرف نکل جاتی اورہرجگہ جاگھستی ہیں‘‘ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم اورابن المنذرنے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمر ؓ سےنقل کی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیاداری کا اسلمی تصور، جوقرآن اورنبی ﷺ کی تعلیم وتربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا، چہرے کواجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اورگھرسے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعاََ خلاف تھا۔حضرت عمرؓ صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کوحیا کی علامت اوراسے اجانب کے سامنے کھولنے کوبےحیائی قراردےرہے ہیں۔ |