Ayats Found (1)
Surah 12 : Ayat 21
وَقَالَ ٱلَّذِى ٱشْتَرَٮٰهُ مِن مِّصْرَ لِٱمْرَأَتِهِۦٓ أَكْرِمِى مَثْوَٮٰهُ عَسَىٰٓ أَن يَنفَعَنَآ أَوْ نَتَّخِذَهُۥ وَلَدًاۚ وَكَذَٲلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِى ٱلْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُۥ مِن تَأْوِيلِ ٱلْأَحَادِيثِۚ وَٱللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰٓ أَمْرِهِۦ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
مصر کے جس شخص نے اسے خرید1ا اس نے اپنی بیوی2 سے کہا 3"اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں" اس طرح ہم نے یوسفؑ کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا4 اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
4 | حضرت یوسف ؑ کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدّن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنالی تھیں۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانواوہٴ ابراہیمی کی خداپرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے، مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک، یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، اور اس لے لیے جس واقفیت ، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختا کال بنادیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوگاا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشونما پاسکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہوجائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے |
3 | تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر ١۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شائد تم اسے کہیں سے چُرا لائے ہو۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاوٴ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل اِملاک کا مختار بنادیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ”اس نے اپنا سب کچھ یوسف ؑ کے ہاتھ میں چھوڑدیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھالیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا“۔ (پیدائش ۳۹ - ٦) |
2 | تلمود میں اس عورت کا نام زَلِیخا (Zelicha ) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہُوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے،نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بدچلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہوچکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدہٴ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبِیثٰتُ لِلخَبِیثِینَ وَالخَبِیثُونَ للخَبِیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے |
1 | بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ”عزیز“کے لقب سے یاد کرتا ہے، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف ؑ کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحبِ منصب تھا، کیونکہ ”عزیز“ کے معنی ایسے بااقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جاسکتی ہو۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلواداروں (باڈی گارڈ)کا افسر تھا، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا |