Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 83
وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ ءَاتَيْنَـٰهَآ إِبْرَٲهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِۦۚ نَرْفَعُ دَرَجَـٰتٍ مَّن نَّشَآءُۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیمؑ کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی ہم جسے چاہتے ہیں بلند مرتبے عطا کرتے ہیں حق یہ ہے کہ تمہارا رب نہایت دانا اور علیم ہے
Surah 12 : Ayat 76
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَآءِ أَخِيهِ ثُمَّ ٱسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَآءِ أَخِيهِۚ كَذَٲلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِى دِينِ ٱلْمَلِكِ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُۚ نَرْفَعُ دَرَجَـٰتٍ مَّن نَّشَآءُۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِى عِلْمٍ عَلِيمٌ
تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی اِس طرح ہم نے یوسفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے1 ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب علم سے بالا تر ہے
2 | یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا۔ پہلے کہ چکے تھے کہ ہم لوگ چور نہیں ہیں۔ اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہو گیا ہے تو فورا ایک جھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی الگ کر لیا اور اس کے ساتھ اس کے پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسفؑ کے پھیچھے بن یمین کے ساتھ ان بھائیوں کا سلوک رہا ہوگا اور کس نبا پر اس کی اور حضرت یوسفؑ کی یہ خواہش ہوگی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے۔ |
1 | یعنی یہ بات حضرت یوسفؑ کی شان پغمیبری کے شایان نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے۔ اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود تدبیر کی تھی اس میں یہ خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو رو کا تو ضرور جا سکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانون تعزیرات سے کام لینا پڑتا، اور یہ اس پغمیبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیارات حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کرنے ککے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بدنما غلطی میں متبلا ہو جانے دیتا، گمر اس نے یہ گوارانہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تڈبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقا برادران یوسفؑ سے چور کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعت ابراہیمی کا قانون بیان کر دیا۔ یہ چیز اس لحاظ سے بالکل برمحل تھی کہ برادران یوسفؑ مصری رعایانہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لاگ تھے، لہذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اُس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، توپھر مصری قانون تغریرات سے اس معامعلہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالی نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندی درجہ اور کیا سکتی ہے کہ اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں متبلا ہو رہا ہو تو اللہ تعالی غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرما دے۔ ایسا بلند مرتبہ صرف انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی وعمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا محسن ہونا ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ اگرچہ حضرت یوسفؑ صاحب علم تھے، خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں اکی کسر رہ گئی اور اُسے اس ہستی نے پورا کیا جوہر صاحب علم سے بالاتر ہے۔
یہاں چندا مور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے:
(۱) عام طور پر اس آیت کا ترجمعہ یہ کیا جاتا ہے کہ یوسفؑ بادشاہ کے قانون کی رو سے اپنے بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا یعنی ماَ کاَنَ لیاَِخُذُ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی ہیں۔ لیکن اول تو یہ ترجمعہ و تفسیر عربی محاور سے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ عربی عموما ماَکَانَ لَھ بمعنی ماَ یَنبغَٰٰٰٰٰی لَََھ، ماَ صَحَ لَھ مَا استَقَامَ لَھ، وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تراسی معنی میں آیا ہے۔ مثلا مَا کَامَ اللہُ لِیضُیعَ مَن وَلَدِِ۔ مَا کَانِ لَنَا اَن نُشرَکَ بِاللہِ مَن شَی مَا کَان اللہُ لَیُطلعَکمُ عَلیَ الغَیبِ۔ مَا کَان اللہُ لِیضُیعَ اَیمَانَکُم فَمِا کَانَ اللہُ لِیَظلہَمُ۔ مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ المُؤمِی،َ عَلی مَا اَنتُم عَلَیھ۔ مَا کَاََن لَمُؤمِنِ اَن یَقتُل مُومِناَ۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لییے جاہیں جو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات مہمل ہو جاتی ہے۔ بادشاہ کے قانون میں چور کو پرڑ سکنے کی آخر وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا دینا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟
(۲) اللہ تعالی نے شاہی قانون کے لیے، دین الملک کا لفط استعمال کرکے خود اُس مطلب کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جو مَا کاَنَ لِیَا خُذُ سے لیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا پغیمبر زمین میں دین اللہ جاری کرنے کے لیے مبعوث ہُوا تھا نہ کہ دین الملک جاری کرنے کے لیے۔ اگر حالات کی مجبوری سے اُس کی حکومت میں اُس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہو سکا تھا تب بھی کم از کم پغمیبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک پر عمل کرے۔ لہذا حضرت یوسفؑ کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کہ دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی، بلکہ اس کہ وجہ صرف یہ تھی کہ پغیمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعا نا مناسب تھی۔
(۳) قانون مُلکی (Law of the land) کے لیے لفظ دین استعمال کر کے اللہ تعالی نے معنی دین کی وسعت پوری طرح واضح کر دی ہے۔ اس سے اُن لوگوں کے تصور دین کی جڑ کٹ جاتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مذہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرالیتے تک محددد سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدن، سیاست، معشیت ؤ، عدالت ، قانون اور ایسے ہی دوسرے دینوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے یا ار ہے بھی تو ان اُمور کے بارے میں دین کی ہدایات محض اختیاری سفارشات ہیں جن پر اگر عمل ہو جائےتو اچھا ہے ورنہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سراسر گمراہانہ تصور دین جس کا ایک مدت سے مسلمانوں میں چر چاہے جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظام زندگی کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے جس کی بدولت مسلمان کفرو جاہلیت کے نظام زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک بنی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پُرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے آمادہ ہو گئے، اس آیت کی رو سے قعطا غلط ثابت ہوتا ہے یہاں اللہ تعالی صاف بتا رہا ہے کہ جس طرح نماز، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسانٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ لہذا اِنَ الدِینَ عِندَ اللہِ الاِسلَامُ اور وَمَن یَتبِغَ غَیرَ الاَََِسلاَمَ دِینا فَلَن یُقبَلَ مِنھُ وغیرہ آیات میں دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز روزہ ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر سؤکسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہو سکتی۔
(۴) سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں دین الملک ہی جاری تھا۔ اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلی حضرت یوسفؑ ہی تھے جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کر چکے ہو، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسفؑ خدا کے پغمیبر خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں دین الملک جاری کر رہے تھے۔ اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسفؑ نے دین الملک کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہُوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پغمیبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا مگر ایک ایک کا نظام عملا ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا ۔ آج اگر کوئی ملک بالکیہ ہمارے اختیار میں ہوا اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں ، تب بھی اس کے نظام تمدن نظام معاشی نظام سیاست اور نظام عدالت و قانون کو بالفصل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے۔ کیا تاریخ اس بات پر شاہد نہیں ہے کہ خود بنی وﷺ کو عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے؟ اس دوران میں خاتم النبیین ؑ کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سود لیا اور دیا جاتا رہا جاہلیت کا قانون میراث جاری رہا پرانے قوانین نکاح و طلاق برقرار رے، بیوع فاسدہ کی بہت صورتیں عمل میں آتی رہیں، اور اسلامی قوانین دیوانی و فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہو گئے۔ پس اگر حضرت یوسفؑ کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پغمیبر مصر میں خدا کے دیہن کو نہیں بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسفؑ کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایاں شان نہ تھا تو یہ سوال بھی ﷺ کے طرقیہ ہر غور کرنے سے باآسانی حل ہوجاتا ہے بنی ﷺ کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے لوگ پُرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے مگر کیا حضورﷺ نے بھی ؟ لاگ سود لیتے دیتے تھے مگر کیا آپ نے بھی سودی لین دین کیا؟ لوگ متعہ کرتے رہے اور جمع بین الاختین کرتے رہے مگر کیا حضورﷺ سنے بھی ایسا کیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلام کا عملی مجبوریوں پر عمل کرنا اور چیز تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں۔ داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی عمل کرے جن کے مٹانے پردہ مامور ہُوا ہے۔
|