Ayats Found (3)
Surah 33 : Ayat 32
يَـٰنِسَآءَ ٱلنَّبِىِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ ٱلنِّسَآءِۚ إِنِ ٱتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِٱلْقَوْلِ فَيَطْمَعَ ٱلَّذِى فِى قَلْبِهِۦ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو1 اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو2
2 | یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دِل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو، اُس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو، اُس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھُلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمّت دلائے۔ اس طرزِ گفتگو کے متعلق اللہ تعالٰی؟صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دِل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومناتِ متّقیات کا۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ (اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو) تو ربّ العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اُسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبّہ ہو جائے۔ اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے، کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پرآ کر گائے ناچے، تھرکے ،بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُنا سُنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں؟ یا ہوائی میزبان (Air-hostess)بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دے جائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھُل مِل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے۔ |
1 | یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ اِن آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں اِن اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہّرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہّرات سے ہے، یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کونسی بات ایسی ہے جوحضورؐ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو؟ کیا اللہ تعالٰی کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہّرات ہی گندگی سے پاک ہوں، اور وہی اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں، اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے؟ رہا یہ فقرہ کہ ’’تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں‘ البتہ تم ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہی جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ’’تمہیں گالی نہ بَکنی چاہیے۔‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بَکنے کو بُرا سمجھتا ہے، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ |
Surah 33 : Ayat 33
وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰۖ وَأَقِمْنَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتِينَ ٱلزَّكَوٲةَ وَأَطِعْنَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۚۥٓ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجْسَ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو1 اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو2 نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے3
3 | جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’گھر والوں‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے، دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل، بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓاَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق، ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ’’اہل البیت‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وکانت تحتہ ابنتۃ واحبّ الناس الیہ۔ ’’تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورؐ کی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓاور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دُعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُمالرّ جس و طھّر ھم تطھیراً۔خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے گندگی کو دور کردے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائے)۔ حضورؐ نے فرمایا،’’ تم الگ رہو، تم تو ہو ہی۔‘‘اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم، ترمذی۔ احمد،ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدریؓ ، حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہ ؓسے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔ اِسی طرح ان لوگوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتہً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا رہا ہے۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے ’’گھر والوں‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا‘ لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں، اس لیے آپؐ نے تصریح کی ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہّرات کے حق میں۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہّرات کو ’’اہل البیت‘‘ سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ’’اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے‘‘ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دُور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں، بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہّ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہ ُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ .........وَیُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالٰی فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ۔’’مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پرتمام کر دے‘‘ (المائدہ۔آیت ۶) |
2 | اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایکََتَبُّرج‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ۔ تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے‘ ابھرنے اور کھُل کر سامنے آنے کے ہیں۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ ’’بَرَ ج‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’بُرج‘‘ کو ’’بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے۔ بادبانی کشتی کے لیے ’’بارجہ‘‘ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہونگے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حُسن لوگوں کو دکھائے، دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہلِ لُغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے۔ مجاہد، قَتَادہ اور ابن انی نُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُرو تکسر و تفنج ’’تبرُّج کے معنی ہیں نازو ادا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے چلنا‘‘ مُقاتل کہتے ہیں : ابد أ قلائد ھا و قرطھا و عنقھا ’’عورت کا اپنے ہار اور اپنے بُندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا‘‘۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھاما یجب علیھا سترہٗ ’’ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔‘‘ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محا سنھا ما تستدھی بہٖ شہوۃ الرّجَال۔’’یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسب کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو‘‘۔ جاہلیّت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے۔ ایک، آل عمران کی آیت ۱۵۴ میں، جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چُرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ’’اللہ کے بارے میں حق کے خلاف جاہلیّت کے سے گمان رکھتے ہیں۔‘‘دوسرے سُورۂ مائدہ، آیت ۵۰ میں، جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ’’کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔‘‘ تیسرے سُورۂ فتح، آیت ۲۶ میں، جہاں کفّار مکہّ کے اِس فعل کو ’’حمیت جاہلیہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصّب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُنا تو فرمایا’’تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’تین کام جاہلیّت کے ہیں۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا، ستاروں کی گردش سے فال لینا، اور مُردوں پر نوحہ کرنا‘‘۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیّت سے مُراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرزِ عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اور جاہلیّت اولیٰ کا مطلب وہ بُرائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی جس طرزِ عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو، کیوں کہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دَورِ جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں۔ بن ٹھن کر نکلنا، چہرے اور جسم کے حُسن کو زیب و زینت اور چُست لباسوں یا عُریاں لباسوں سے نمایاں کرنا، اور ناز وادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آگیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی رُوح نِکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے۔ |
1 | اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’وقار‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو‘‘۔اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے، اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں، اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے؟ جواب میں فرمایا من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کے بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔’’عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور ، حاشیہ ۴۹) قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں، بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں، سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں، کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں، مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’مسافرنوازی‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں، اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ز وائدالزھد میں، اور ابن المُنذِر، ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔ |
Surah 33 : Ayat 35
إِنَّ ٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَـٰتِ وَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْقَـٰنِتِينَ وَٱلْقَـٰنِتَـٰتِ وَٱلصَّـٰدِقِينَ وَٱلصَّـٰدِقَـٰتِ وَٱلصَّـٰبِرِينَ وَٱلصَّـٰبِرَٲتِ وَٱلْخَـٰشِعِينَ وَٱلْخَـٰشِعَـٰتِ وَٱلْمُتَصَدِّقِينَ وَٱلْمُتَصَدِّقَـٰتِ وَٱلصَّـٰٓئِمِينَ وَٱلصَّـٰٓئِمَـٰتِ وَٱلْحَـٰفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَٱلْحَـٰفِظَـٰتِ وَٱلذَّٲكِرِينَ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱلذَّٲكِرَٲتِ أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بالیقین1 جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں2، مومن ہیں3، مطیع فرمان ہیں4، راست باز ہیں5، صابر ہیں6، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں7، صدقہ دینے والے ہیں8، روزہ رکھنے والے ہیں9، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں10، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں11، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے12
12 | اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ |
11 | اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ |
10 | اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عُریانی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو، یا اتنا چُست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اُس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں |
9 | اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں |
8 | اس سے مُراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے۔ مُراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دِل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حدِ استطاعت تک وہ کوئی دریغ نہیں کرتے۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار، کوئی مصیبت زدہ، کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج آدمی اُن کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آ جائے تو اس پر اپنے مال لُٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ |
7 | یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرورِ نفس سے خالی ہیں۔ وہ اِس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے دِل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے۔ ان سے کبھی وہ رویہّ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیبِ کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اِس عام خدا ترسانہ رویہّ کے ساتھ خاص طور پر ’’خشوع‘‘ سے مُراد نماز ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے |
6 | یعنی خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں ، جو خطرات بھی درپیش ہوں ، جو تکلیفیں بھی اُٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ، ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ کوئی خوف، کوئی لالچ اور خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ |
5 | یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔ جھوٹ ، فریب، بدنیتی ، دغا بازی اور چَھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے اُن کا ضمیر صحیح جانتا ہے۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔ |
4 | یعنی وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔ |
3 | یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے۔ بادل نا خواستہ نہیں ہے ، بلکہ دِل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسے کی پیروی میں ہماری فلاح ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے ، اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دِل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سُنت سے جو حکم ثابت ہو اُسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق، یا دُنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکمِ خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں : ذاق طعم الایمان من رضی با للّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُلا۔ایمان کا لذت ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمدؐ ہی اس کے رسولؐ ہوں۔ اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔ لایؤمن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاًلما جئتُ بہٖ (شرح السنّہ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اُس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں |
2 | یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اُسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔دوسرے الفاظ میں ، جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریقِ فکر اور طرزِ زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے۔بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں |
1 | پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواجَ مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ اُن کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے۔ |