Ayats Found (1)
Surah 6 : Ayat 137
وَكَذَٲلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَـٰدِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُواْ عَلَيْهِمْ دِينَهُمْۖ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا فَعَلُوهُۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے1 تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں2 اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنا دیں3 اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ اپنی افترا پرداز یوں میں لگے رہیں4
4 | یعنی اگر اللہ چاہتا کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کر سکتے تھے ، لیکن چونکہ اللہ کی مشیّت یہی تھی کہ جو شخص جس راہ پر جانا چاہتا ہے اسے جانے کا موقع دیا جائے، اسی لیے یہ سب کچھ ہوا۔ پس اگر یہ لوگ تمہارے سمجھانے سے نہیں مانتے اور ان افترا پردازیوں ہی پر انھیں اصرار ہے تو جو کچھ یہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دو، ان کے پیچھے پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں |
3 | زمانۂ جاہلیّت کے عرب اپنے آپ کو حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کا پیرو کہتے اور سمجھتے تھے اور اس بنا پر ان کا خیال یہ تھا کہ جس مذہب کا وہ اتباع کر رہے ہیں وہ خدا کا پسندیدہ مذہب ہی ہے ۔ لیکن جو دین ان لوگوں نے حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ سےسیکھا تھا اس کے اندر بعد کی صدیوں میں مذہبی پیشوا ، قبائل کے سردار، خاندانوں کے بڑے بوڑھے اور مختلف لوگ طرح طرح کے عقائد اور اعمال اور رسوم کا اضافہ کرتے چلے گئے جِنھیں آنے والی نسلوں نے اصل مذہب کا جزء سمجھا اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ چونکہ روایات میں ، یا تاریخ میں، یا کسی کتاب میں ایسا کوئی ریکارڈ محفوظ نہ تھا جس سے معلوم ہوتا کہ اصل مذہب کیا تھا اور بعد میں کیا چیز یں کس زمانہ میں کس نے کس طرح اضافہ کیں، اس وجہ سے اہلِ عرب کے لیے ان کا پورا دین مشتبہ ہر کر رہ گیا تھا۔ نہ کسی چیز کے متعلق یقین کے ساتھ یہی کہہ سکتے تھے کہ یہ اس اصل دین کا جزء ہے جو خدا کی طرف سے آیا تھا، اور نہ یہی جانتے تھے کہ یہ بدعات اور غلط رسُوم ہیں جو بعد میں لوگوں نے بڑھا دیں۔ اِسی صُورت ِ حال کی ترجمانی اس فقرے میں کی گئی ہے |
2 | یہ ہلاکت کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔ اِس سے مراد اخلاقی ہلاکت بھی ہے کہ جو انسان سنگ دلی اور شقاوت کی اس حد کو پہنچ جائے کہ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے لگے اس میں جو ہر ِ انسانیت تو درکنار جوہرِ حیوانیت تک باقی نہیں رہتا۔ اور نوعی و قومی ہلاکت بھی کہ قتلِ اولاد کا لازمی نتیجہ نسلوں کا گھٹنا اور آبادی کا کم ہونا ہے، جس سے نوعِ انسانی کو بھی نقصان پہنچتا ہے ، اور وہ قوم بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی ہے جو اپنے حامیوں اور اپنے تمدّن کےکارکنوں اور اپنی میراث کے وارثوں کو پیدا نہیں ہونے دیتی، یا پیدا ہوتے ہی خود اپنے ہاتھوں اُنھیں ختم کر ڈالتی ہے۔ اور اس سے مراد انجامی ہلاکت بھی ہے کہ جو شخص معصُوم بچّوں پر یہ ظلم کرتا ہے ، اور جو اپنی انسانیت کو بلکہ اپنی حیوانی فطرت تک کو یوں اُلٹی چھُری سے ذبح کرتا ہے ، اور جو نوعِ انسانی کے ساتھ اور خود اپنی قوم کے ساتھ یہ دُشمنی کرتا ہے ، وہ اپنے آپ کو خدا کے شدید عذاب کا مستحق بناتا ہے |
1 | یہاں”شریکوں“ کا لفظ ایک دُوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اُوپر کے معنی سےمختلف ہے۔ اوپر کی آیت میں جنھیں ”شریک“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا وہ ان کے معبُود تھے جن کی برکت یا سفارش یا توسّط کو یہ لوگ نعمت کے حصُول میں مددگار سمجھتے تھے اور شکرِ نعمت کے استحقاق میں انھیں خدا کے ساتھ حصّہ دار بناتے تھے۔ بخلاف اس کے اس آیت میں ”شریک“ سے مراد وہ انسان اور شیطان ہیں جنھوں نے قتلِ اولاد کو ان لوگوں کی نگاہ میں ایک جائز اور پسندیدہ فعل بنا دیا تھا۔ انھیں شریک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے جس طرح پرستش کا مستحق تنہا اللہ تعالیٰ ہے ، اسی طرح بندوں کے لیے قانون بنانے اور جائز و ناجائز کی حدیں مقرر کرنے کا حق دار بھی صرف اللہ ہے۔ لہٰذا جس طرح کسی دُوسرے کے آگے پرستش کے افعال میں سے کوئی فعل کرنا اسے خدا کا شریک بنانے کا ہم معنی ہے، اسی طرح کسی کے خود ساختہ قانون کو برحق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کو واجب الاطاعت ماننا بھی اسے خدائی میں اللہ کا شریک قرار دینے کا ہم معنی ہے۔ یہ دونوں افعال بہرحال شریک ہیں، خواہ اُن کا مرتکب ان ہستیوں کو زبان سے الٰہ اور ربّ کہے یا نہ کہے جن کے آگے وہ نذر و نیاز پیش کرتا ہے یا ج ن کے مقرر کیے ہوئے قانون کو واجب الاطاعت مانتا ہے۔ قتل ِ اولاد کی تین صُورتیں اہلِ عرب میں رائج تھیں اور قرآن میں تینوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: (۱) لڑکیوں کا قتل، اس خیال سے کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے، یا قبائلی لڑائیوں میں وہ دُشمن کے ہاتھ نہ پڑیں ، یا کسی دُوسرے سبب سے وہ ان کے لیے سبب عار نہ بنیں۔ (۲) بچّوں کا قتل ، اس خیال سے کہ ان کی پرورش کا بار نہ اُٹھایا جا سکے گا اور ذرائع معاش کی کمی کے سبب سے وہ ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائیں گے۔ (۳) بچّوں کو اپنے معبُودوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھانا |