Ayats Found (3)
Surah 24 : Ayat 27
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُواْ وَتُسَلِّمُواْ عَلَىٰٓ أَهْلِهَاۚ ذَٲلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو1 اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے2
2 | جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حّیِّیتم صَبَا حاً ، حُیِّیتم مَسَاءً (صبح بخیر، شام بخیر) کہتے ہوۓ بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرماۓ انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں : ۱ : حضورؐ نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا ، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبان (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کر دہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن، ’’ جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا موقع رہا‘‘ (ابو داؤد)۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ حضورؐ نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک ، فانما الا ستیذان من النظر‘‘، پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے ‘‘ (ابو داؤد)۔ حضورؐ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے ، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پر دے نہ لٹکاۓ جاتے تھے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد )۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کے حجرے میں باہر سے جھانکا۔ حضورؐ اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوۓ تھے۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے (ابو داؤد)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حجورؐ نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما یجظر فی لنار، ’’ جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے ‘‘ (ابو داؤد)۔ صحیحین میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح، ’’ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں ‘‘۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے : من اطلع دار قومٍ بغیر اذانھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ، ’’ جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤخذہ نہیں ‘‘۔ امام شافعیؒ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آۓ اور گھر والوں کے روکنے پروہ باز نہ آۓ اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جاۓ یا کوئی اور عضو ٹوٹ جاۓ تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا (احکام القرآن جصاص۔ ج3۔ ص 385)۔ ۲ : فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آۓ تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی ، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بے جا مداخلت ہے۔ ۳ : اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہنوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے ، کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا : اتحب ان تراھا عریانۃ، ’’ کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟‘‘(ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً )۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوۓ بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبدل اللہ بن مسعود جب کبھی گھر میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہو جاۓ کہ وہ آ رہے ہیں۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں (ابن جریر)۔ ۴ : اجازت طلب کرنے کے حکم ے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آ جاۓ ، مثلاً آگ لگ جاۓ یا چور گھس آۓ۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جا سکتے ہیں۔ ۵ : اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا :أألج (کیا میں گھر میں گھس آؤں؟) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے : السلام علیکم أأدخل (ابن جریر۔ ابو داؤد )۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرتؐ کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ’’ میں ہوں ‘‘۔ آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا: ’’میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ ‘‘ یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو(ابو داؤد )۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حَنبل ایک کام سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں گۓ اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ، اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ (ابو داؤد)۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے ’’السلام علیہ یا رسول اللہ ، اید خل عمر (ابو داؤد )۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کر دی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پربھی جواب نہ آۓ تو واپس ہو جاؤ (بخاری، مسلم، ابو داؤد )۔ یہی حضورؐ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گۓ اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہو گۓ۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آۓ اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے مرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جاۓ اچھا ہے ، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا (ابو داؤد۔ احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے ، بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جاۓ۔ ۶ : اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے ، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر دے کہ آ جاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہو جانا چاہیے۔ ۷ : اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہو جانا جائز نہیں ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ نہ ملے ، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے |
1 | اصل میں لفظ : حتّیٰ تستانسوا استعمال ہوا ہے ، جس کو عموماً لوگوں نے حتی تستاذنوا کے معنی میں لے لیا ہے ، لیکن در حقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر حتّیٰ تستاذنوا فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو ‘‘اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالٰی نے حتی تستانسوا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مادے سے استیناس کا مطلب کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا ، یا اپنے سے مانوس کرنا۔ پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ’’ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس معلوم نہ کر لو‘‘، یعنی یہ معلوم نہ کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں ہے ، وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر میں داخل ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اجازت لینے ‘‘ کے بجاۓ ’’ رضا لینے ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے |
Surah 24 : Ayat 28
فَإِن لَّمْ تَجِدُواْ فِيهَآ أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ٱرْجِعُواْ فَٱرْجِعُواْۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے1، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے2، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے
2 | یعنی اس پر برا نہیں ماننا چاہیے۔ ایک آدمی کو حق ہے کہ وہ کسی سے نہ ملنا چاہے تو انکار کر دے ، یا کوئی مشغولیت ملاقات میں مانع ہو تو معذرت کر دے۔ اَرْجِعُوْا (واپس ہو جاؤ) کے حکم کا فقہاء نے یہ مطلب لیا ہے کہ اس صورت میں دروازے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ آدمی کو وہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے کو ملاقات پر مجبور کرے ، یا اس کے دروازے پر ٹھہر کر اسے تنگ کرنے کی کوشش کرے |
1 | یعنی کسی کے خالی گھر میں داخل ہو جانا جائز نہیں ہے ، الا یہ کہ صاحب خانہ نے آدمی کو خود اس بات کی اجازت دی ہو۔ مثلاً اس نے آپ سے کہہ دیا ہو کہ اگر میں موجود نہ ہوں تو آپ میرے کمرے میں بیٹھ جائیے گا، یا وہ کسی اور جگہ پر ہو اور آپ کی اطلاع ملنے پر وہ کہلا بھیجے کہ آپ تشریف رکھیے ، میں ابھی آتا ہوں۔ ورنہ محض یہ بات کہ مکان میں کوئی نہیں ہے ، یا اندر سے کوئی نہیں بولتا، کسی کے لیے یہ جائز نہیں کر دیتی کہ وہ بلا اجازت داخل ہو جاۓ |
Surah 24 : Ayat 30
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَـٰرِهِمْ وَيَحْفَظُواْ فُرُوجَهُمْۚ ذَٲلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْۗ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا يَصْنَعُونَ
اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں 1اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں2، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے
2 | شرمگاہوں کی حفاظت سے مراد محض نا جائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کے لیے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ناف سے کھٹنے تک مقرر فرماۓ ہیں : عورۃ الرجل ما بین سُرَّ تہ الیٰ رکبتہٖ ، ’’ مرد کا ستر اس کی ناف سے کھٹنے تک ہے ’’ (دارقطنی بیہقی)۔ اس حصہ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جَرھَدِاَسْلمی، جو اصحاب صُفَّہ میں سے ایک بزرگ تھے ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا : اما علمت ان الفخذ عورۃ، ’’ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے قابل چیز ہے ‘‘؟ (ترمذی، ابو داؤد ، مؤطا )۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا تُبرِز (یا لا تکشف) فخذک، ’’اپنی ران کبھی نہ کھولو‘‘۔ (ابو داؤد ، ابن ماجہ)۔ صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں ، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے : ایاکم ولاتعری فان معکم من لا یفار قکم الا عندالغائط وحین یفضی الرجلالیٰ اھلہٖ فا ستحیوھم وا کرمو ھم ، ’’ خبر دار، کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے ) سواۓ اس اوقات کے جب تم رفع ھاضت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو‘‘ (ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : احفظ عورت کالا من زوجتک او ما ملکت یمینک ، ‘‘ اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو‘‘۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا : فاللہ تبارک و تعالیٰ احق ان یستھیامنہ ، ’’ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جاۓ ، ‘‘ (ابو داؤد، ترمذی ، ابن ماجہ) |
1 | اس میں الفاظ ہیں : یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ۔ غَضّ کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے ، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ غَضِّ بصر کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے۔ لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے ، بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا ، اور نگاہوں کو دیکھنے کے لیے بالکل آزادانہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’ نظر بچانے ‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے ، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹا لی جاۓ ، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچا لے جاۓ۔ مِنْ اَبْسَارِھِمْ میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ با لفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جاۓ ، بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ چاہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا، یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا، یا فحش مناظر پر نگاہ جمانا۔ کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں : 1 : آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جاۓ تو وہ معاف ہے ، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑاۓ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بد کاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بد کاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہو چکتی ہیں تب شرم گاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں ، یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں (بخاری ، مسلم، ابو داؤد)۔ حضرت بُرَیدَہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا یَا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ نان لک الاولی ولیست لک ا لاٰخرۃ، ’’ اے علی ایک نظر کے بعد دوسرے نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ‘‘(احمد، ترمذی ، ابو داؤد ، دارمی)۔ حضرت جریر بن بد اللہ بَجَلِی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا اچانک نگاہ پڑ جاۓ تو کیا کروں۔ فرمایا فوراً نگاہ پھیر لو ، یا نیچی کر لو(مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی)۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان النظر سہم من سھام ابلیس مسموہِ ، من تکھا مخافتی ابد لتہ ایمانا ایمانا یجد حلاوتۃ فی قلبہٖ ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پاۓ گا (طبرانی)۔ ابو امامہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : مامن مسلم ینظر ا الیٰ محاسن امرأۃ ثم یغض بصرہ الا اخلف اللہ لہ عبادۃ یجد حلاوتھا، ’’ جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے ‘‘ (مسند احمد)۔ امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باق سے اور وہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے ) مَشْعِرَ حرام سے واپسی کے وقت حضورؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا (ابو داؤد)۔ اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خَثْعَم کی ایک عورت راست میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کر دیا۔ (بخاری، ابو داؤد ، ترمذی)۔ 2: اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھر نے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آ سکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہو جاۓ۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِّ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مسْتَلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورہ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آ کر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن مُعطّل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آ گیا۔ فعر فنی حین راٰنی وکان قد راٰنی قبل الحجاب فاستیقظت باستر جاعہ حین عر فنی فخمرت وجھی بجلبابی، ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا لیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے مری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر ، سیرت ابن ہشام)ابو داؤد ، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہ نے حیرت کے ساتھ کہا کہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا، اور تم اس اطمینان کے ساتھ با پردہ آئی ہو۔ جواب میں کہنے لگیں : ان ارزأ ابنی فلن ارزأ حیائی ، ’’ میں نے بیٹا تو ضرور کھو یا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا ’’ عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لیے ہوتے ‘‘۔ رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبوی میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے ، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے۔ تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتیں غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جا رہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتوں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں ، اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘ (ابو داؤد ، باب فی المحرمۃ تغطّی وجھہا)۔ 3 : غضّ بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کے لیے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے ، بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہؓ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا : النظر الیھا فانہ احری ان یُؤدِم بیجکما ، ’’ اسے دیکھ لو۔ اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہو گی‘‘ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ ، دارمی )۔ ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : انظر الیھا فان فی اعین الانصر شیئاً ، ’’ لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے ‘‘(مسلم، نسائی، احمد)۔ جابرؓ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا :اذا خطب احد کم المرأۃ فَقَدَرَاَن یریٰ منھا بعض ما ید عوہ الیٰ نکاحھا فلیفعل، ’’ تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کر لینا چاہیے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ‘‘(احمد ، ابو داؤد)۔ مسند احمد میں ابو حُمَیدَہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے اس غرض کے لیے دیکھنے کی اجازت کو : فلاجناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کر لینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں۔ مثلاً تفتیش جرائم کے کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا ، یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا، یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔ 4 : غضِّ بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : لا ینظر الرجل الیٰ عورۃ الرجل ولا تنظر المأۃ الیٰ عورۃ مرأۃ ، ’’ کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے ، اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے ‘‘ (احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی )۔ حضرت علی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا لاتنظر الیٰ فخذحی ولا میت ، ’’ کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘ (ابو داؤد، ابن ماجہ ) |