Ayats Found (5)
Surah 5 : Ayat 48
وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِۖ فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ ٱلْحَقِّۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًاۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـٰكُمْۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ إِلَى ٱللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی1 اور اس کی محافظ و نگہبان ہے2 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ3 کرو ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی اگرچہ تمہارا خدا چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اُس نے یہ اِس لیے کیا کہ جو کچھ اُس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو4
4 | یہ مذکورہ بالا سوال کا پُورا جواب ہے۔ اس جواب کی تفصیل یہ ہے: (۱) محض اختلاف شرائع کو اس بات کی دلیل قرار دینا غلط ہے کہ یہ شریعتیں مختلف مآخذ سے ماخوذ اور مختلف سر چشموں سے نکلی ہوئی ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لیے مختلف زمانوں اور مختلف حالات میں مختلف ضابطے مقرر فرمائے۔ (۲) بلاشبہ یہ ممکن تھا کہ شروع ہی سے تمام انسانوں کے لیے ایک ضابطہ مقرر کر کے سب کو ایک اُمّت بنا دیا جاتا۔ لیکن وہ فرق جو اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کی شریعتوں کے درمیان رکھا اُس کے اندر دُوسری بہت سی مصلحتوں کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طریقہ سے لوگوں کی آزمائش کرنا چاہتا تھا ۔ جو لوگ اصل دین اور اس کی رُوح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں، اور دین میں اِن ضوابط کی حقیقی حیثیت کو جانتے ہیں، اور کسی تعصّب میں مُبتلا نہیں ہیں وہ حق کو جس صُورت میں بھی وہ آئے گا پہچان لیں گے اور قبول کر لیں گے۔ اُن کو اللہ کے بھیجے ہوئے سابق احکام کی جگہ بعد کے احکام تسلیم کرنے میں کوئی تامّل نہ ہو گا۔بخلاف اس کے جو لوگ روح دین سے بیگانہ ہیں اور ضوابط اور ان کی تفصیلات ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں،اور جنہوں نے خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیزوں پر خود اپنے حاشیےچڑھا کر ان پر جمود اور تعصب اختیا کر لیا ہے وہ ہر اُس ہدایت کو رد کرتے چلے جائیں گے جو بعد میں خدا کی طرف سے آئے ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش ضروری تھی، اس لیے اللہ تعالٰی نے شرائع میں اختلاف رکھا۔
(۳)تمام شرائع سے اصل مقصود نیکیوں اور بھلائیوں کو پانا ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہو سکتی ہیں کہ جس وقت جو حکم خدا ہو اس کی پیروی کی جائے۔لہذا جو لوگ اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں ان کے لیے شرائع کے اختلافات اور مناہج کے فروق پر جھگڑا کرنے کے بجائے صیح طرز عمل یہ ہے کہ مقصد کی طرف اس راہ سے پیش قدمی کریں جس کو اللہ تعالٰی کی منظوری حاصل ہو۔(۴)جواختلافات انسانوں نے اپنے جمود تعصب،ہٹ دھرمی اور ذہن کی اُپچ سے خود پیدا کر لیے ہیں اُن کا آخری فیصلہ نہ مجلس مناظرہ میں ہو سکتا ہے نہ میدان جنگ میں۔آخری فیصلہ اللہ تعالٰی خود کرے گا جبکہ حقیقت بے نقاب کر دی جائے گی اور لوگوں پر منکشف ہو جائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کر دنیا سے آئے ہیں اُن کی تہ میں’’حق‘‘ کا جو ہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر |
3 | یہ ایک جملہ ء معترضہ ہے جس سے مقصُود ایک سوال کی توضیح کرنا ہے جو اُوپر کے سلسلہ ء تقریر کو سُنے ہوئے مخاطب کے ذہن میں اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تمام انبیاء اور تمام کتابوں کا دین ایک ہے ، اور یہ سب ایک دُوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے آئے ہیں تو شریعت کی تفصیلات میں ان کے درمیان فرق کیوں ہے؟ کیا بات ہے کہ عبادت کی صُورتوں میں ، حرام و حلال کی قیُود میں اور قوانین ِ تمدّن و معاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اور کُتبِ آسمانی کی شریعتوں کے درمیان تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے |
2 | اصل میں لفظ”مُھَیْمِنْ“ استعمال ہوا ہے۔ عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی ، شہادت، امانت ، تائد اور حمایت کے ہیں۔ ھیمن الرجل الشئ، یعنی آدمی نے فلاں چیز کی حفاظت و نگہبانی کی۔ ھیمن الطائر علیٰ فراخہ۱، یعنی پرندے نے اپنے چُوزے کو اپنے پروں میں لے کر محفوض کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا انی داعٍ فھیمنوا یعنی میں دُعا کر تا ہوں تم تائید میں آمین کہو۔ اسی سے لفظ ھمیَان ہے جسے اُردو میں ہمیانی کہتے ہیں، یعنی وہ تھیلی جس میں آدمی اپنا مال رکھ کر محفوظ کرتا ہے۔ پس قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کُتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کر لیا ہے۔ وہ اِن پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کےاندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہو گئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے |
1 | یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا تھا کہ ”پچھلی کتابوں“ میں سے جو کچھ اپنی اصلی اور صحیح صورت پر باقی ہے، قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ”پچھلی کتابوں“ کے بجائے”الکتاب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ قرآن اور تمام وہ کتابیں جو مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں، سب فی الاصل ایک ہی کتاب ہیں۔ ایک ہی ان کا مصنّف ہے ، ایک ہی ان کا مدّعا اور مقصد ہے ، ایک ہی ان کی تعلیم ہے ، اور ایک ہی علم ہے جو ان کے ذریعہ سے نوع انسانی کو عطا کیا گیا۔ فرق اگر ہے تو عبارات کا ہے جو ایک ہی مقصد کے لیے مختلف مخاطبوں کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے اختیار کی گئیں۔ پس حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یہ کتابیں ایک دوسرے کی مخالف نہیں، مؤ یّد ہیں، تردید کرنے والی نہیں، تصدیق کرنے والی ہیں۔ بلکہ اصل حقیقت اس سے کچھ بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ”الکتاب“ کے مختلف ایڈیشن ہیں |
Surah 11 : Ayat 118
وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ ٱلنَّاسَ أُمَّةً وَٲحِدَةًۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے
Surah 11 : Ayat 119
إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَۚ وَلِذَٲلِكَ خَلَقَهُمْۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اِسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا1 اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان، سب سے بھر دوں گا
1 | یہ اس شبہہ کاجواب ہے جوبالعموم ایسے مواقع پرتقدیم کے نام سے پیش کیاجاتا ہے۔ اوپراقوام گرشتہ کی تباہی کاجوسبب بیان کیاگیا ہےاس پریہ اعتراض کیاجاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کاموجود نہ رہنایا بہت کم پایا جانا بھی توآخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کاالزام ان قوموں پرکیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کردیے؟اس کے جواب میںیہ حقیقت حال صاف صاف بیان کردی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کےبارے میں یہ ہےہی نہیں کہ حیوانات اورنباتات اورایسی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کوبھ جبلی طور پرایک لگے بندھے راستے کاپابند بنادیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی توپھر دعوت ایمان، بعثت انبیاء اورتنزیل کتب کی ضرورت ہی کیاتھی، سارے انسان مسلم ومومن ہی پیدا ہوتے اورکفرو عصیان کاسرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نےانسان کے بارے میںجومشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کوانتخاب واختیار کی آزادی بخشی جائے،اسے اپنی پشندکے مطابق مختلف راہوں پرچلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اوردوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اورپھر ہرانسان اورہرانسانی گروہ کوموقع دیاجائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کوبھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہرایک جوکچھ بھی پائے اپنی وکسب کےنتیجہ میں پائے پس جب وہ اسکیم جس کےتحت انسان پیداکیا گیا ہےہ، آزادی انتخاب اوراختیاری کفروایمان کےاصول پرمبنی ہے تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود توبڑھنا چاہے بدی کی راہ پراوراللہ زبردستی اس کوخیر پرموڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے توانسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جوایک سے ایک بڑھ کر بدکار اورظالم اورفاسق آدمی ڈھال ڈھال کرنکالیں، اوراللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کردے جواس کےبگڑے پوئے سانچوں کوٹھیک کردیں۔اس قسم کی مداخلت خدا کےدستور میںنہیں ہے۔ نیک ہوں یابد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کوخود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کوپسند کرے گی ، جس میں سے کوئی معتد بہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جونیکی کاجھنڈا بلند کرے، اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںاس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خداکو کیاپڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تواس کواس انجام کی طرف دھکیل دے گا جواس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے توصرف وہ جس میں بہت سےافراد ایسے نکلیں جوخود دعوت خیر کولبیک کہنے والے ہوں اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںیہ صلاحیت باقی رہنے دی ہوکہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔ (مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوالانعام ،حاشیہ ۲۴)۔ |
Surah 16 : Ayat 93
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَلَتُسْــَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا1، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے2، اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہو کر رہے گی
2 | یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کردیتا ہے، اور کوئی راہِ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے۔ |
1 | یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور بُرے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو (جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالٰی کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالٰی کو اپنے نام نہاد ”طرف داروں“ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر ومعصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کرسکتا؟ |
Surah 42 : Ayat 8
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَآءُ فِى رَحْمَتِهِۦۚ وَٱلظَّـٰلِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار1
1 | یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے : اولاً ، اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضورؐ کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کُڑھیں ، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جاۓ ، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جاۓ جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ ، درخت ، مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ، ص 535 تا 537۔ 570 )۔ ثانیاً، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوۓ ہیں ، اسے پسند نہ تھے ، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں ، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں ، اس کو پسند ہیں ، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں ، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ،ص 573۔574۔ 587۔594 تا 596۔ جلد دوم، ص 313۔373۔374۔528۔539۔540) ثانیاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تا کہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں ، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 420۔421۔566 تا 569)۔ ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جاۓ۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزون نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے ، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے ، اس کو اپنا ولی بناۓ اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے ، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجاۓ دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے ، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے ، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے ، سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں |