Ayats Found (11)
Surah 2 : Ayat 7
خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْۖ وَعَلَىٰٓ أَبْصَـٰرِهِمْ غِشَـٰوَةٌۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے1 اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے وہ سخت سزا کے مستحق ہیں
1 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مُہر لگا دی تھی، اِس لیے اُنہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب اُنہوں نے اُن بنیادی اُمور کو رد کر دیا جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دُوسرا راستہ پسند کر لیا ، تو اللہ نے اُن کے دِلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی۔ اِس مُہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اُس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کر دیتا ہے ، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے ، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے |
Surah 4 : Ayat 155
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَـٰقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ وَقَتْلِهِمُ ٱلْأَنۢبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفُۢۚ بَلْ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلاً
آخر کا ر اِن کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں حالانکہ در حقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے اِن کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں
Surah 7 : Ayat 100
أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْأَرْضَ مِنۢ بَعْدِ أَهْلِهَآ أَن لَّوْ نَشَآءُ أَصَبْنَـٰهُم بِذُنُوبِهِمْۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟1 (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے2
2 | یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سےسبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلا وے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی ۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اس کی بینائی تک آفتا بِ روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کو ئی کچھ نہیں سنا سکتا |
1 | یعنی ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اُٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اِسی جگہ دادِ عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر وعمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا، اور یہ بھی محسوس کر سکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے آکر اُنہیں اُ ن کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور اُن سے یہ جگہ خالی کرا لی تھی، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجود ہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ اِن سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کراسکے گا جس طرح اس نے اُن سے خالی کرائی تھی |
Surah 7 : Ayat 101
تِلْكَ ٱلْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنۢبَآئِهَاۚ وَلَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ مِن قَبْلُۚ كَذَٲلِكَ يَطْبَعُ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ ٱلْكَـٰفِرِينَ
یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں) ان کے رسول ان کے پا س کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اُسے وہ ماننے والے نہ تھے دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں1
1 | پچھلی آیت میں جو ارشاد ہوا تھا کہ ”ہم ان کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سنتے “، اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمادی ہے۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دلوں پر مہر لگانے سے مراد ذہنِ انسانی کا اُس نفسیاتی قانون کی زد میں آجانا ہے جس کی رُو سے ایک دفعہ جاہلی تعصبات یا نفسانی اغراض کی بنا پر حق سے مُنہ موڑ لینے کے بعد پھر انسان اپنی ضد اور ہٹ دھر می کے اُلجھاؤمیں اُلجھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی دلیل، کسی مشاہدے اور کسی تجر بے سے اس کے دل کے دروازے قبول ِ حق کے لیے نہیں کُھلتے |
Surah 9 : Ayat 93
۞ إِنَّمَا ٱلسَّبِيلُ عَلَى ٱلَّذِينَ يَسْتَــْٔذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَآءُۚ رَضُواْ بِأَن يَكُونُواْ مَعَ ٱلْخَوَالِفِ وَطَبَعَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
البتہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواستیں کرتے ہیں کہ انہیں شرکت جہاد سے معاف رکھا جائے انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)
Surah 10 : Ayat 74
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنۢ بَعْدِهِۦ رُسُلاً إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَآءُوهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ بِهِۦ مِن قَبْلُۚ كَذَٲلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ ٱلْمُعْتَدِينَ
پھر نوحؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا اس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں1
1 | حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتب غلطی کر جانے کے بعد پھر اپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیں اسے پھر کسی فہمائش، کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخرکار ایسی پِھٹکار پڑتی ہے کہ انہیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔ |
Surah 16 : Ayat 108
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَـٰرِهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے یہ غفلت میں ڈوب چکے ہیں
Surah 30 : Ayat 59
كَذَٲلِكَ يَطْبَعُ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اِس طرح ٹھپہ لگا دیتا ہے اللہ اُن لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں
Surah 40 : Ayat 35
ٱلَّذِينَ يُجَـٰدِلُونَ فِىٓ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَـٰنٍ أَتَـٰهُمْۖ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ ٱللَّهِ وَعِندَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْۚ كَذَٲلِكَ يَطْبَعُ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ
اور اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی سند یا دلیل آئی ہو1 یہ رویہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے نزدیک سخت مبغوض ہے اِسی طرح اللہ ہر متکر و جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا ہے2
2 | یعنی کسی کے دل پر ٹھپہ بلا وجہ نہیں لگا دیا جاتا۔ یہ لعنت کی مہر صرف اسی کے دل پر لگائی جاتی ہے جس میں تکبر اور جباریت کی ہوا بھر چکی ہو۔ تکبر سے مراد ہے آدمی کا جھوٹا پندار جس کی بنا پر وہ حق کے آگے سر جھکانے کو اپنی حیثیت سے گری ہوئی بات سمجھتا ہے۔ اور جباریت سے مراد خلق خدا پر ظلم ہے جس کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے آدمی شریعت الٰہیہ کی پابندیاں قبول کرنے سے بھاگتا ہے |
1 | یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے گمراہی میں انہی لوگوں کو پھینکا جاتا ہے جن میں یہ تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بد اعمالیوں میں حد سے گزر جاتے ہیں اور پھر انہیں فسق و فجور کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ اصلاح اخلاق کی کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے معاملہ میں ان کا مستقل رویہ شک کا رویہ ہوتا ہے۔ خدا کے نبی ان کے سامنے خواہ کیسے ہی بینات لے آئیں، مگر وہ ان کی نبوت میں بھی شک کرتے ہیں اور ان حقائق کو بھی ہمیشہ شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو توحید اور آخرت کے متعلق انہوں نے پیش کیے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی آیات پر معقولیت کے ساتھ غور کرنے کے بجاۓ کج بحثوں سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کج بحثیوں کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے، نہ کسی آسمانی کتاب کی سند پر، بلکہ از اول تا آخر صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی ان کی واحد بنیاد ہوتی ہے۔ یہ تین عیوب جب کسی گروہ میں پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں نکال سکتی۔ |
Surah 45 : Ayat 23
أَفَرَءَيْتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَـٰهَهُۥ هَوَٮٰهُ وَأَضَلَّهُ ٱللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِۦ وَقَلْبِهِۦ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِۦ غِشَـٰوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِنۢ بَعْدِ ٱللَّهِۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
پھر کیا تم نے کبھی اُس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا1 اور اللہ نے علم کے باوجود2 اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟3 اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟4
4 | جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میںمانع سمجھتے ہیں۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے، وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں، مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے۔ کوئی کلمہ نصیحت ان پر کار گر نہیں ہوتا۔ جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے لیے مفید ہو سکتی ہے، وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی، بلکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں، اور ان کے دل و دماغ کسی اچھی فکر کے بجاۓ شب و روز اپنی اغراض و خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا ع الم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بد تر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا |
3 | اللہ کے کسی کو گمراہی میں پھینک دینے اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دینے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر اس کتاب میں کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص 52۔ 55۔ 531۔ 538۔ جلد دوم، ص 61۔62۔221۔222۔ 224۔ 301۔ 458۔ 459۔ 470۔ 471۔ 486۔ 575۔ 576۔ 619۔ 560۔ جلد سوم، ص، 767، جلد چہارم، فاطر، آیت 8، حواشی 16۔17، المومن، حاشیہ 54 |
2 | اصل الفاظ ہیں اَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمِہ۔ ایک مطلب ان الفاظ کا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہا اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے، اسے گمراہی میں پھینک دیا |
1 | خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جاۓ۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے۔ ان جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوۓ کو حرام کیا، نہ اس کے حلال کیے ہوۓ کو حلال کیا۔‘‘ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ‘‘۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے۔ جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے۔‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،ص 453۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 63۔ یٰس، حاشیہ 53۔ الشوریٰ، حاشیہ 38) |