Ayats Found (10)
Surah 4 : Ayat 32
وَلَا تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بِهِۦ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبُواْۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبْنَۚ وَسْــَٔلُواْ ٱللَّهَ مِن فَضْلِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے1
1 | اس آیت میں بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے ۔ اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں ۔کوئی خوبصُورت ہے اور کوئی بد صُورت۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدّن کی ساری گونا گونی قائم ہے اوریہ عین مقتضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مضنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کر تا ہے وہاں ایک نوعیّت کا فساد رُونما ہوتاہے ، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لیےفطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دُوسری نوعیّت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دُوسروں کو دیا ہو اس کی تمنّا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دُعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ” مَردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصّہ“، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی بُرائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق، یا بالفاظِ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصّہ پائے گا |
Surah 4 : Ayat 35
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِۦ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصْلَـٰحًا يُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں1 اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے2
2 | اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہوجائے وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے ، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مِل کر اسبابِ اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صُورت نکالیں۔ یہ پنچ یا ثالث مقرر کرنے والا کون ہو؟ اس سوال کو اللہ تعالٰی نے مبہم رکھا ہے تاکہ اگر زوجین خود چاہیں تو اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی ایک ایک آدمی کو اپنے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب کر لیں، ورنہ دونوں خاندانوں کے بڑے بوڑھے مداخلت کر کے پنچ مقرر کریں، اور اگر مقدمہ عدالت میں پہنچ ہی جائے تو عدالت خود کوئی کاروائی کرنے سے پہلے خاندانی پنچ مقرر کر کے اصلاح کی کوشش کرے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارات کیا ہیں۔ فقہاء میں ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، البتہ تصفیہ کی جو صُورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں، ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے۔ ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خُلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا۔ یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیا ر ہے، مگر علیٰحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے۔ یہ حَسَن بصری اور قَتَادہ اور بعض دوسرے فقہاء کا قول ہے ۔ ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کردینے کے پُورے اختیارات ہیں۔ ابن عباس، سَعِید بن جُبَیر، ابراہیم نَخَعی، شَعبِی، محمد بن سِیرِین، اور بعض دوسرے حضرات نے یہی رائے اختیار کی ہے ۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے اُن کو حاکمانہ اختیارات دے دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عَقیِل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عُتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس ؓ ، اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ ؓ بن ابی سفیان کو پنچ مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کر دیان ہی مناسب ہو تو تفریق کر دیں۔ اسی طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی ؓ نے حَکَم مقرر کیے اور ان کو اختیار دیا کہ چاہے ملا دیں اور چاہیں جُدا کردیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطورِ خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔ البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا |
1 | دونوں سے مراد ثالث بھی ہیں اور زوجین بھی۔ ہر جھگڑے میں صلح ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ فریقین بھی صلح پسند ہوں اور بیچ والے بھی چاہتے ہوں کہ فریقین میں کسی طرح صفائی ہو جائے |
Surah 4 : Ayat 7
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٲلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٲلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت1، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے
1 | اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں: ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔ دُوسرے یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے خو اہ وہ کتنی ہی کم ہو ، حتٰی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصّوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اَور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے اُن کا حصّہ خرید لے ۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنفِ مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اِس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا |
Surah 4 : Ayat 8
وَإِذَا حَضَرَ ٱلْقِسْمَةَ أُوْلُواْ ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينُ فَٱرْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو1
1 | خطاب میّت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دُور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچّے آجائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو۔ میراث میں ازرُوئے شرع اُن کا حصّہ نہیں ہے تو نہ سہی، وُسعتِ قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے اُن کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعمُوم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں |
Surah 4 : Ayat 9
وَلْيَخْشَ ٱلَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَـٰفًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُواْ ٱللَّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا
لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں
Surah 4 : Ayat 10
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَٲلَ ٱلْيَتَـٰمَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ نَارًاۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا
جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں در حقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے1
1 | حدیث میں آیا ہے کہ جنگِ اُحُد کے بعد حضرت سعد بن رَبیع ؓ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ” یا رسول اللہ! یہ سعد ؓ کی بچیاں ہیں جو آپ ؐ کے ساتھ اُحُد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پُوری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہّ تک نہیں چھوڑا ہے ۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا“۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں |
Surah 4 : Ayat 128
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًاۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌۗ وَأُحْضِرَتِ ٱلْأَنفُسُ ٱلشُّحَّۚ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
جب1 کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطر ہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں صلح بہر حال بہتر ہے2 نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں3، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہوگا4
4 | یہاں پھر اللہ تعالٰی نے مرد ہی کے جذبۂ فیاضی سے اپیل کی ہے جس طرح بالعموم ایسے معاملات میں اس کا قاعدہ ہے۔ اس نے مرد کو ترغیب دی ہے کہ وہ بے رغبتی کے باوجود اس عورت کے ساتھ احسان سے پیش آئے جو برسوں اس کی رفیقِ زندگی رہے ہے، اور اس خدا سے ڈرے جو اگر کسی انسان کی خامیوں کے سبب سے اپنی نظرِ التفات سے اس پھیر لے اور اس کے نصیب میں کمی کرنے پر اُتر آئے تو پھر اس کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ رہے |
3 | عورت کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر شوہر کے لیے بے رغبتی کے اسباب کو خود محسوس کر تی ہو اور پھر بھی وہ سلوک چاہے جو ایک مرغوب بیوی کے ساتھ ہی برتا جا سکتا ہے۔ مرد کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ جو عورت دل سے اُتر جانے پر بھی اس کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہو اس کو وہ حد سے زیادہ دبانے کی کوشش کرے اور اس کے حقوق ناقابلِ برداشت حد تک گھٹا دینا چاہے |
2 | یعنی طلاق و جدائی سے بہتر ہے کہ اس طرح باہم مصالحت کر کے ایک عورت اُسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے |
1 | یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کر نے کے لیے آزاد تھا اور ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے ۔ سُورۂ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہو ئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہوگئیں۔ ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل ( یعنی مساویانہ برتا ؤ) کو شرط قرار دیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے ، یا دائم المرض ہے، یا تعلقِ زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے، اور شوہر دُوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبُور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے؟ یکساں محبت رکھے؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کی شرط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دُوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کو چھوڑ دے؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنےبعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کر لے؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلا ف تو نہ ہوگا ؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب اِن آیات میں دیا گیا ہے |
Surah 4 : Ayat 130
وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ ٱللَّهُ كُلاًّ مِّن سَعَتِهِۦۚ وَكَانَ ٱللَّهُ وَٲسِعًا حَكِيمًا
لیکن اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہو جائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاجی سے بے نیاز کر دے گا اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا و بینا ہے
Surah 4 : Ayat 20
وَإِنْ أَرَدتُّمُ ٱسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَءَاتَيْتُمْ إِحْدَٮٰهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْــًٔاۚ أَتَأْخُذُونَهُۥ بُهْتَـٰنًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟
Surah 4 : Ayat 21
وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُۥ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَـٰقًا غَلِيظًا
اور آخر تم اُسے کس طرح لے لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندو ز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں1؟
1 | پختہ عہد سے مراد نکاح ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں ایک مضبُوط پیمان وفا ہے جس کے استحکام پر بھروسہ کر کے ہی ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالہ کرتی ہے ۔ اب اگر مرد اپنی خواہش سے اس کو توڑتا ہے تو اُسے معاوضہ واپس لینے کا حق نہیں ہے جو اس نے معاہد ہ کرتے وقت پیش کیا تھا۔ ( ملاحظہ ہو سُورہ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۵١) |