Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 15
ٱللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِى طُغْيَـٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ
اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں
Surah 6 : Ayat 110
وَنُقَلِّبُ أَفْــِٔدَتَهُمْ وَأَبْصَـٰرَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُواْ بِهِۦٓ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِى طُغْيَـٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ
ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے1 ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں
1 | یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سُن کر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے نقطۂ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے ، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انھیں اُس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مُسلّط ہے |
Surah 7 : Ayat 186
مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥۚ وَيَذَرُهُمْ فِى طُغْيَـٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ
جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اُس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے، اور اللہ اِنہیں اِن کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑے دیتا ہے
Surah 10 : Ayat 11
۞ وَلَوْ يُعَجِّلُ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ ٱلشَّرَّ ٱسْتِعْجَالَهُم بِٱلْخَيْرِ لَقُضِىَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْۖ فَنَذَرُ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا فِى طُغْيَـٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ
اگر کہیں1 اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں
1 | اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیشِ نظر رکھینی چاہییں: ایک یہ کہ اِس تقریر سے تھوڑی مدّت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہلِ مکہ چیخ اُٹھے تھے۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے، بت پرستی میں کمی آگئی تھی، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آگئی تھی کہ آخرکار ابو سفیان نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپؐ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں۔ مگر جب قحط دُور ہو گیا، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دَور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بداعمالیاں، اور دینِ حق کے خلا ف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے۔ (ملاحظہ ہو النحل، آیت ۱۱۳۔ المومنون، آیات ۷۵ تا ۷۷۔ الدخان، آیات ۱۰ تا ۱۶)۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ان لوگوں کو انکار ِحق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذابِ الہٰی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آ کیوں نہیں جاتا۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سُن کر بلائے قحط جلدی سے دُور کر دی۔ اُسی طرح وہ تمہارےچیلنج سُن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فورًا بھیج دے۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا، بلبلانا اور گڑگڑانا شروع کر دیا، اور جہاں راحت کا دَور آیا کہ سب کچھ بھول گئے۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذاب ِالہٰی کا مستحق بناتی ہیں۔ |