Ayats Found (5)
Surah 5 : Ayat 108
ذَٲلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يَأْتُواْ بِٱلشَّهَـٰدَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَآ أَوْ يَخَافُوٓاْ أَن تُرَدَّ أَيْمَـٰنُۢ بَعْدَ أَيْمَـٰنِهِمْۗ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱسْمَعُواْۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے، یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد ددسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے اللہ سے ڈرو اور سنو، اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
Surah 9 : Ayat 24
قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٲنُكُمْ وَأَزْوَٲجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٲلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَـٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَـٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے1، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا
1 | یعنی تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اُس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے |
Surah 9 : Ayat 80
ٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَهُمْۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اے نبیؐ، تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا
Surah 61 : Ayat 5
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَـٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِى وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْۖ فَلَمَّا زَاغُوٓاْ أَزَاغَ ٱللَّهُ قُلُوبَهُمْۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اور یاد کرو موسیٰؑ کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی 1"اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں؟" پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا2
2 | یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلاۓ، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوۓ ہوں ان کا زبردستی ہدایت سے سرفراز فرماۓ۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جاۓ۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی (Freedom of Choice ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے اطاعت و ہدایت کی راہ پر لاۓ۔ لیکن یہ بجاۓ خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے یے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ہو ’’ توفیق‘‘ ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ ’’ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ‘‘۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سر گرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کی لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جاۓ، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزاۓ خیر کا مستحق ہو۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے ان کو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا |
1 | قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بے وفائیاں ان کے ساتھ کیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت 51۔ 55۔ 60۔ 87 تا 71۔ النساء، 153۔ المائدہ، 20 تا 26۔ الاعراف 138 تا 141۔ 148 تا 151۔ طٰہٰ 86 تا 98۔بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے ۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج 20:5۔ 21 11:14۔ 12۔ 2:16۔ 3۔ 3:17۔ 4۔ گنتی 1:11۔ 15۔1:14۔ 10۔16 مکمل۔ 1:20۔ 5 یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لی کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ اختیار کی تھی، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوۓ |
Surah 63 : Ayat 6
سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَهُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انہیں معاف نہ کرے گا1، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں2 دیتا
2 | اس آیت میں دو مضمون بیان کیے گۓ ہیں۔ ایک یہ کہ دعاۓ مغفرت صرف ہدایت یافتہ لوگوں ہی کے حق میں مفید ہو سکتی ہے۔ جو شخص ہدایت سے پھر گیا ہو اور جس نے اطاعت کے بجاۓ فسق و نا فرمانی کی راہ اختیار کر لی ہو، اس کے لیے کوئی عام آدمی تو در کنار، خود اللہ کا رسول بھی مغفرت کی دعا کرے تو اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں کو ہدایت بخشنا اللہ کا طریقہ نہیں ہے جو اس کی ہدایت کے طالب نہ ہوں۔اگر ایک بندہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑ رہا ہو، بلکہ ہدایت کی طرف اسے بلایا جاۓ تو سر جھٹک کر غرور کے ساتھ اس دعوت کو رد کر دے ، تو اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے اپنی ہدایت لیے پھرے اور خوشامد کرے اسے راہ راست پر لاۓ |
1 | یہ بات سورہ توبہ میں (جو سورہ منافقون کے تین سال بعد نازل ہوئی ہے ) اور زیادہ تاکید کے ساتھ فرما دی گئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے منافقین کے متعلق فرمایا کہ ’’ تم چاہے ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر(70) مرتبہ بھی ان کے لیے دعاۓ مغفرت کرو گے تو اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ’’ (التوبہ۔ آیت 80)۔ آگے چل کر پھر فرمایا’’ اگر ان میں سے کوئی مر جاۓ تو اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور یہ فاسق ہونے کی حالت میں مرے ہیں ‘‘(التوبہ۔ آیت 84) |