Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 54
وَلِيَعْلَمَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْعِلْمَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُواْ بِهِۦ فَتُخْبِتَ لَهُۥ قُلُوبُهُمْۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهَادِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے1
1 | یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش ، اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے بر حق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے ، ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلملاتا۔ سلسلہ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر ہیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکا م ہو گۓ ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہ تھا کہ ایک شخص، جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے، وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صورت حال میں جب لوگ آپ کے اس بیان کو دیکھتے تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے ، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے ، تو انہیں آپ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ نظر آنے لگتی تھی ، اور آپ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید ، اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں ،اب کیوں نہیں آ جاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جاتے تھے۔ انہی باتوں کو جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رخ کفار کی طرف تھا اور ان آیتوں میں اس کا رخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھر اس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثار قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آگیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں ، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں ، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ ان شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوت حق فروغ پاتی ہے ، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں ، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں ‘‘۔ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں ان آیات سے حاصل ہوا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گۓ ، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی خطرے میں پڑ گئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب علم فہم قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کو فرق اچھی سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا نتائج پیدا کرتا ہے ، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفار قریش کی نفرت دور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں۔ یا کم از کم ان کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپ پر سورہ نجم نازل ہوئی اور آپ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپ :اَفَرَ اَیْتُمْ اللَّاتَ وَ الْعُزّٰ ی ہ وَمَنَا ۃَ الثَّالِثَۃ۔الْاُخْریٰ ، پر پہنچے تو یکایک آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے تلک الغرانقۃ العلی ہ وان شفا عتحن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے )۔ اس کے بعد آگے پھر آپ سورہ نجم کی آیات پڑھتے چلے گۓ، یہاں تک کہ جب اختتام سورہ پر آپ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدے میں گر گۓ۔ کفار قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمدؐ سے کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے ، البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورہ بنی اسرائیل ، رکوع 8 میں ہے کہ : وَاِنْ کَا دُوْ ا لَیَفْتِنُوْ نَکَ عَنِالَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَعَلَیْنَا غَیْرَہٗ ........... ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْراً ، یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورہ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ادھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرت کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا ، مہاجرین حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتؐ اور کفار مکہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکہ واپس آ گۓ۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ صلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کفر کی دشمنی جوں کی توں قائم ہے۔ یہ قصہ ابن جریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ، ابن سعد نے طبقات میں ، الواحدی نے اسباب النزول میں ، موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم، ابن النذِر ،بَزّار، ابن مَردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قُرظی ، عُروہ بن زبیر، ابوصالح، ابولعالیہ، سعید بن جبیر، ضحاک ، ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث، قتادہ ، مجاہد ، سُدّی ، ابن شہاب زُہری، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے )۔ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کیے گۓ ہیں وہ قریب قریب ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو 15 عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رو سے یہ الفاظ دوران وحی میں شیطان نے آپ پر القا کر دیے اورآپ سمجھے کہ بھی جبریلؑ لائے ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اس خواہش کے زیر اثر سہواً آپ کی زبان سے نکل گۓ۔ کسی میں ہے کہ اس وقت آپ کو اونگھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپ کی آواز ملا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا یہ گیا کہ آپ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔ ابن کثیر ، بیہقی، قاضی عیاض، ابن خُزیمہ، قاضی ابو بکر ابن العزی ، امام رازی ، قُرطبی، بدر الدین عینی ، شو کافی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’ جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے ، سب مرسل اور منقطع ہیں ، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔’’بیہقی کہتے ہیں کہ ’’ از روئے نقل یہ قصہ ثابت نہیں ہے ‘‘۔ ابن خزیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں ے کہا کہ ’’ یہ زنادقہ کا گھڑا ہوا ہے ‘‘۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ ’’اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے ‘‘۔ امام رازی ، قاضی ابوبکر جصاص جیسے نامور فقیہ اور زَمخشرمی جیسے عقلیت پسند مفسیر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ابن حجر کا محدثانہ استدلال یہ ہے کہ : ’’ سعید بن جبیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آتی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسند صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بذار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حماد عن اَمَیّہ بن خالد عن شُعْنہ عن ا بی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس) اور دو طریقوں سے یہ اگر چہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طبری نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق معمر بن سلیمان و حماد بن سلمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ا بی العالیہ‘‘۔ جہاں تک موافقین کا تعلق ہے ، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند اس کے نزدیک قومی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں ، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں ، یا جو اب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہوا نہیں رد کر دیں۔ وہ تو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نام ور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین، اور متعدد و معتبر راویان حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جاۓ کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جب کہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے ؟ اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابل قبول قرار پاتا ہے ، چاہے اس کی سند کتنی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔ پہلی چیز خود اس کی اندرونی شہادت ہے جو اسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ واقع ہو چکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکہ واپس آگیا۔اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب 5 نبوی میں واقع ہوئی، اور مہاجرین حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سن کر تین مہینے بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں ) مکے واپس آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لا محالہ 5 نبوی کا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فعل پر بطور عتاب نازل ہوئی تھی ، معراج کے بعد اتری ہے ، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رو سے 11 یا 12 نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زیر بحث آیت ، جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے 1 ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی، اللہ نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ کیا کوئی صاحب عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد،اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان 9 سال بعد؟ پھر اس قصے میں بیان کیا گیا کہ یہ آمیزش سورہ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آ رہے تھے ، یکا یک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰ پر پہنچ کر آپ نے بطور خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا، اور آگے پھر سورہ نجم کی اصل آیات پڑھتے چلے گۓ۔اس کے متعلق کہا جارہا ہے کہ کفار مکہ اسے سن کر خوش ہو گۓ اور انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلہ کلام میں اس الحاقی فقرے کو شامل کر کے تو دیکھیے : ’’ پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ ) کے لیے ہوں بیٹیاں ؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے رب کی طرف سے صحیح رہنمائی آگئی ہے ‘‘۔ دیکھیے ،اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں ، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر ان پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں ؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصے میں آئیں بیٹیاں َ۔یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کہ شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سن رہا تھا، بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورہ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلاف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سلتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سننے کے بعد یہ پکار اٹھے ہونگے کہ چلو آج ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا؟ یہ تو ہے اس قصے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شان نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے ؟ قصے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورہ نجم میں کی گئی تھی، جو 5 نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورہ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا ، اوور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورہ حج کی زیر بحث آیت میں کی گئی۔ اب لامحالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی سورت پیش آئی ہو گی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتیں اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا ، یا پھر عتاب والی آیت سورہ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورہ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ دونوں آیتیں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورہ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورہ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے 6 سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اس بے تکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔ یہاں پہنچ کر نقد صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے ، یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورہ بنی اسرائیل کا آٹھوں رکوع پڑھ کر دیکھیے ، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے اس سلسلہ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظرآتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے (قطع نظر اس سے کہ آیت : اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْ نَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں ، اور آیت کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورہ حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آگیا کہ ’’اے نبی ، 9 سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اس پر گھبراؤ نہیں ، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے ، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسوخ کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے۔ ‘‘ ہم اس سے پہلے بھی بار ہا کہہ چکے ہیں ، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت ، خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ ،سیاق و سباق ، ترتیب، ہر چیز اسے قبول کرنے سے انکار کر رہی ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصہ قطعی غلط ہے۔ رہا مومن ، تو وہ اسے ہر گز نہیں مان سکتا جب کہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا ، بہ نسبت اس کے کہ وہ یہ مان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی اپنی خواہش نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے ، یا حضورؐ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کےلئےبھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش کرکے کفارکو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں ، یا یہ کہ آپ پر وحی کسی ایسے غیرمحفوظ اور مشتبہ طریقے سے آتی تھی کہ جبریل کے ساتھ شیطان بھی آپ پر کو لفظ القا کر جائے اور آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات کے خلاف ہے اور ان ثابت شدہ عقائد کے خلاف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس روایت پر ستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرقِ روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس شک کو بھی دور کر دیا جائے جو راویان حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصے کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ تو نبیؐ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتان حدیث کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے ، جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں ، اشاعت کیسے پا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے اسباب کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخاری ، مسلم، ابو داؤد ، نَسائی اور مُسند احمد میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گۓ۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اول تو قرآن کا زور کلام اور انتہائی پر تاثیر انداز بیان ، پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا ، اس کو سن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گر گیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہ تو وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادو گر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تأثر پر کچھ پشیمان سے ہوۓ ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب ، ہمارے کانوں نے تو محمدؐ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گۓ۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرین حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے ، کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً 33 آدمی مکے میں واپس آ گۓ۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں ، یعنی قریش کا سجدہ اس سجدے کی یہ توجیہ، اور مہاجرین حبشہ کی واپسی، مل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے ولے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کرکے ہضم کر جاتے ہیں۔اور بد طینت لوگو چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے ، نذر آتش کر دینے کے لائق ہے |
Surah 42 : Ayat 13
۞ شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحًا وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِۦٓ إِبْرَٲهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰٓۖ أَنْ أَقِيمُواْ ٱلدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُواْ فِيهِۚ كَبُرَ عَلَى ٱلْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِۚ ٱللَّهُ يَجْتَبِىٓ إِلَيْهِ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِىٓ إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ1 یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے2
2 | یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت 8۔9 میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر 11 میں کر چکے ہیں۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجاۓ الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت کو پاۓ اور کوئی اس پر خار کھاۓ۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے |
1 | یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی نۓ مذہب کے بانی نہیں ہیں ، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اسی کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحؑ کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھی ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں ، پھر حضرت ابراہیمؑ کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے ، اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آۓ ہیں ، سب ایک ہی دین لے کر آۓ ہیں ، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں۔ یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جاۓ: فرمایا کہ شَرَعَلَکُمْ، ’’ مقرر کیا تمہارے لیے ‘‘ شرع کے لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں ، اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرتا ہے۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ تشریع کا لفظ قانون سازی (Lagislation) کا ، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا شارع کا لفظ واضح قانون (Law giver) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوۓ ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے ، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے ، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے ، اس لیے لامحالہ وحی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بناۓ اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون و ضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے۔ پھر فرمایا مِنَ الدِّیْنِ ، ’’اس قسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ ’’ از آئین ‘‘ کیا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ ’’ دین ‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پلے سورہ زُمُر ، حاشیہ3 نمبر میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوۓ اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ در اصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آۓ ہیں ، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے ، اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے ، اس دین کا لازمی جز ہے ، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے ، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُو ا الدِّیْنَ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ’’ قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے ، اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے ’’ قائم رکھو دین کو ‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جاۓ یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔ اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھا نا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوۓ اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے ، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ ، عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس دے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں ، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جاۓ۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جاۓ۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کر لیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جاۓ تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کا م کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے ، مگر بجاۓ خود مقصد نہیں ہے ، کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے۔ اب دوسرے سوال کو لیجیے۔بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیا ء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے ، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَۃً وَّ مِجْھَا جاً ، اس لیے انہوں نے یہ راۓ قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے ، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل میں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔لیکن یہ ایک بڑی سطحی راۓ ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے ، اور یہ ایسی خطرناک راۓ ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جاۓ تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے ،اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجاۓ آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے ، آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں ، یا شرعی احکام بھی۔قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں : 1)وَمَآ اُمِرُ ؤٓ ا اِلَّا لِیَعْبُدُو ا اللہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّ یْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمو االصَّلوٰۃَ وَ یُؤْ تُو االزَّ کوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ (البیّنہ، آیت 5)۔ ’’ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر اپنے دین کو الہہ کے لیے خالص کرتے ہوۓ اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دین ، اور یہی راست رَو ملت کا دین ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت ، یہی اس کے اجزاء، یہی اس کی رکعتیں ، یہی اس کا قبلہ، یہی اس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں ، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔ 2)حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّ مُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآاھُلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ........ الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ........ (المائدہ۔ 3)۔ تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سواۓ اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا ، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین تمہارے لیے مکمل کر دیا .................‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب حکام شریعت بھی دین ہی ہیں۔ 3) اَتِلُو االَّذِیْنَ لَا یُؤْ مِنُوْنَ بِا للہِ وَلْیَوْمِ الْاٰ خِرِ وَلَا یُحَرِّ مُوْنَ مَا حَرَّ مَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ (التوبہ۔ 29)۔ جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں۔ 4) اَلزَّانِیَۃُوَ الزَّ انِیْ فَا جْلِدُوْ اکُلَّوَحِدٍمِّنْھُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأ خُذْ کُمْ بھِمَا رَأ فَۃٌ فِیْ دِ یْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِا للہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰخِرِ (النّور 20) زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور راز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘ مَا کَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فَیْ دِیْنِ الْمَلِکِ (یوسف۔ 76) یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔ یہ چار تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خواری ، قتل مومن ، یتیم کا مال کھانا ، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا ، وغیرہ)، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عمل قوم لوط ، اور لین دین میں قوم شعیبؑ کا رویہ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے ، اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود جی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے ، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْ لَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْ خِلْہُنَا راً اخَا لِداً ا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مّھُیْنٌ (النساء۔14) ’’ جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے ‘‘۔ اسی جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے ، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت، شراب کی حرمت ، شراب کی حرمت ، چوری کی حرمت، جوۓ کی حرمت ، جھوٹی شہادت کی حرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جاۓ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے ، مثلاً روزہ اور حج ، ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے 30 روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے ، اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیمؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔ دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لَکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمُ شِرْ عَۃً وَّ مِنْھَا جاً (ہم نے تم میں سے ہر امت کے لی ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گۓ ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس دے بالکل بر عکس ہے۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت 41 سے آیت 50 تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دور نبوت ہے۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے ، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے 30 روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے ، مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جاۓ۔انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آۓ گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ، اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری، اخلاقی ، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دین، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِا لْحقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَآ اَرٰ کَ اللہُ (النساء۔ 105)۔اے نبی، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے ‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ۔ 60۔103) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ 275۔ 279) وہ اسی صورت میں رو بہ عمل آ سکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ ہیں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ۔ 178) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ۔ 38) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور۔2۔4) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (لبقرہ۔ 190۔216) یہ سمجھتے ہوۓ نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں چوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حم (التوبہ 29) اور مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوۓ ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ص 633۔ 637۔638۔ جلد سوم ، ص 665 تا 667۔ 730 تا 732۔ جلد چہارم ، الصافّات ، آیات 171 تا 179 (حواشی 93۔94) صٓ ، دیباچہ اور آیت 11 مع حاشیہ 12۔ سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضورؐ 23 سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔ اگر حضورؐ کے اس پورے کام کو ’’اقامت دین ‘‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جاۓ جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو معاذاللہ حضورؐ پر یہ الزام عائد کیا جاۓ کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوۓ تھے ، مگر آپؐ نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جاۓ کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’’ اقامت دین ‘‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا ، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکَمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا )، اعاذنااللہ من ذالک۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’’ اقامت دین ‘‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔ اقامت دین کا حکم دینے کے بعد، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ ’’ دین میں تفرقہ نہ برپا کرو ‘‘ ، یا ’’ اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ ‘‘۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کے کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان مدار ہے ، پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جاۓ۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جاۓ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جاۓ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل ک کے اس کا حلیہ بگاڑا جاۓ ، مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جاۓ اور جو چیز حد سے حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جاۓ۔اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گۓ جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف راۓ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ حاشیہ ۲۲۰ آل عمران حواشی ۱۷۔۱۶ النساء۲۱۱ تا ۲۱۲ المائدہ۱۔۱ الانعام ۱۴۱ جلد دوم النحل حواشی ۱۱۷ تا ۱۲۱ جلد سوم الانبیا حواشی ۸۹ تا ۹۱ الحج حواشی ۱۱۴ تا ۱۱۷ مومنون ۴۵ تا ۴۷ القصص۷۲ تا ۷۴ الروم ۵۰۔ ۵۱ |