Ayats Found (3)
Surah 7 : Ayat 189
۞ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَاۖ فَلَمَّا تَغَشَّـٰهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِۦۖ فَلَمَّآ أَثْقَلَت دَّعَوَا ٱللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ ءَاتَيْتَنَا صَـٰلِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے
Surah 30 : Ayat 21
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٲجًا لِّتَسْكُنُوٓاْ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةًۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں1 تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو2 اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی3 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
3 | محبت سےمراد یہاں جنسی محبت(Sexual Love)ہے جومرد اورعورت کےاندرجذب وکشش کی ابتدائی محرک بنتی ہےاورپھرانہیں ایک دوسرےسےچسپاں کیے رکھتی ہے۔اوررحمت سےمراد وہ روحانی تعلق ہےجوازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے،جس کی بدولت وہ ایک دوسرےکےخیرخواہ،ہمدرد وغم خواراورشریکِ رنج وراحت بن جاتےہیں،یہاں تک کہ ایک وقت ایساآتاہےجب جنسی محبت پیچھے جاپڑتی ہے اوربڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کرایک دوسرے کے حق میں رحیم وشفیق ثابت ہوتے ہیں۔یہ دومثبت طاقتیں ہیں جوخالق نےاُس ابتدائی اضطراب کی مدد کےلیے انسان کے اندرپیدا کی ہیں جس کاذکراوپرگزراہے۔وہ اضطراب توصرف سکون چاہتاہےاس کی تلاش میں مرد وعورت کو ایک دوسے کی طرف لے جاتاہے۔اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کران کےدرمیان مستقل رفاقت کاایسارشتہ جوڑ دیتی ہیں جودوالگ موحولوں میں پرورش پائےہوئےاجنبیوں کوملاکرکچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہےکہ عمربھروہ زندگی کے منجدھارمیں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتےرہتے ہیں۔ظاہرہےکہ یہ محبت ورحمت جس کاتجربہ کروڑوں انسانوں کواپنی زندگی میں ہورہاہے،کوئی مادی چیزنہیں ہےجووزن اورپیمائش میں آسکے،نہ انسانی جسم کے عناصرترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے،نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اوراس کے نشوونما کے اسباب کاکھوج لگایاجاسکتا ہے۔اس کی کوئی توجیہ اس کے سوانہیں کی جاسکتی کہ ایک خالقِ حکیم نے بالاراہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کےساتھ اسے نفسِ انسانی میں ودیعت کردیاہے۔ |
2 | یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیاہے بلکہ بنانے والےنےبالارادہ اِس غرض کےلیے یہ انتظام کیاہے کہ مرداپنی فطرت کے تقاضے عورت کےپاس،اورعورت اپنی فطرت کی مانگ مردکےپاس پائے،اوردونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوکرہی سکون واطمینان حاصل کریں۔یہی وہ حکیمانہ تدبیرہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کےبرقراررہنےکا،اوردوسری طرف انسانی تہذیب وتمدن کووجود میں لانےکاذریعہ بنایاہے۔اگردونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کےساتھ پیداکردی جاتیں اوران میں وہ اضطراب نہ رکھ دیاجاتاجواُن کےباہمی اتصال ووابستگی کے بغیرمبدّل بسکون نہیں ہوسکتا،توانسانی نسل توممکن ہےکہ بھیڑبکریوں کی طرح چل جاتی،لیکن کسی تہذیب وتمدن کےوجود میں آنےکاکوئی امکان نہ تھا۔تمام انواع حیوانی کےبرعکس نوع انسانی میں تہذیب وتمدن کےرونما ہونے کابنیادی سبب یہی ہےکہ خالق نےاپنی حکمت سے مرداورعورت میں ایک دوسرے کےلیے وہ مانگ،وہ پیاس،وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسرنہیں آتاجب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کرنہ رہیں۔یہی سکون کی طلب ہے جس نےانہیں مل کرگھربنانےپرمجبورکیا۔اسی کی بدولت خاندان اورقبیلے وجود میں آئے۔اوراسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدّن کانشوونما ہُوا۔اس نشوونمامیں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگارضرور ہوئی ہیں مگروہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔اصل محرک یہی اضطراب ہےجسےمرد وعورت کےوجود میں ودیعت کرکےانہیں’’گھر‘‘کی تاسیس پرمجبورکردیاگیا۔کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتاہےکہ دانائی کا یہ شاہکارفطرت کی اندھی طاقتوں سےمحض اتفاقًاسرزد ہوگیاہے؟یابہت سے خدایہ انتظام کرسکتےتھےکہ اس گہرےحکیمانہ مقصد کوملحوظ رکھ کرہزارہابرس سےمسلسل بےشمارمردوں اوربےشمارعورتوں کویہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیداکرتے چلےجائیں؟یہ توایک حکیم اورایک ہی حکیم کی حکمت کاصریح نشان ہےجسےصرف عقل کےاندھے ہی دیکھنےسے انکارکرسکتے ہیں۔ |
1 | یعنی خالق کاکمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی،بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes) کی شکل میں پیداکیاجوانسانیت میں یکساں ہیں،جن کی بناوٹ کوبنیادی فارمولا بھی یکساں ہے،مگردونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت،مختلف ذہنی ونفسی اوصاف،اورمختلف جذبات واعیات لےکرپیدا ہوتی ہیں۔اورپھران کے درمیان یہ حیرگ انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہےکہ ان میں سے ہرایک دوسرے کوپوراجوڑاہے،ہرایک کاجسم اوراس کے نفسیات وواعیات دوسرے کے جسمانی ونفسیاتی تقاضوں کامکمل جواب ہیں۔مزیدبرآں وہ خالقِ حکیم ان دونوں صنفوں کےافراد کوآغازِآفرینش سےبرابراس تناسب کے ساتھ پیداکیے چلاجارہاہے کہ آج تک کبھی ایسانہیں ہُواکہ دنیا کی کسی قوم یاکسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیداہوئےہوں،یاکہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیداہوتی چلی گئی ہوں۔یہ ایسی چیزہےجس میں کسی انسانی تدبیرکاقطعًاکوئی دخل نہیں ہے۔انسان ذرہ برابربھی نہ اِس معاملہ میں اثرانداز ہوسکتاہےکہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اورلڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیداہوتے رہیں جوایک دوسرے کاٹھیک جوڑ ہوں،اورنہ اس معاملہ ہی میں اس کے پاس اثراندازہونےکاکوئی ذریعہ ہےکہ عورتوں اورمردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ہزارہا سال سےکروڑوں اوراربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیروانتظام کااتنے متناسب طریقےسےپیہم جاری رہنااتفاقًابھی نہیں ہوسکتا،اوریہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیرکانتیجہ بھی نہیں ہوسکتا۔یہ چیزصریحًااس بات پردلالت کررہی ہےکہ ایک خالقِ حکیم،اورایک ہی خالقِ حکیم نےاپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءًمرد اورعورت کاایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا،پھراس بات کاانتظام کیاکہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حدوحساب مرد اوربے حدوحساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیابھرمیں ایک تناسب کے ساتھ پیداہوں۔ |
Surah 2 : Ayat 187
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْۖ فَٱلْـَٔـٰنَ بَـٰشِرُوهُنَّ وَٱبْتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْۚ وَكُلُواْ وَٱشْرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِۚ وَلَا تُبَـٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَاۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَـٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے1 اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو2 نیز راتوں کو کھاؤ پیو3 یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے4 تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو5 اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو6 یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا7 اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے
7 | یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دُور ہی رہے تاکہ بھُولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اُس حدیث میں بیان ہوا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ، فمن رتع حول الحمی، یوشک ان یقع فیہ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اُس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور ؐ فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اُس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حِمیٰ کے گِرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے۔“ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی رُوح سے ناواقف ہیں ، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انھیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اُس باریک خطِ امتیاز ہی پر گھُومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے |
6 | معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کردے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے ، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے |
5 | رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروبِ آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروبِ آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصّے میں اُفق کے مشرقی کنارے پر سفیدہٴ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اُوپر بڑھنے لگے، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصّے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار ، دونوں کے معاملے شدّتِ احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدّد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ اِدھر اُدھر ہو جانے سے آدمی کا رازہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہٴ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوعِ فجر کے وقت اس کی آنکھ کھُلی ہو تو وہ جلدی سے اُٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروبِ آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سُورج ڈوبتے ہی بلال ؓ کو آواز دیتے تھے کہ لا ؤ ہمارا شربت۔ بلال ؓ عرض کرتے کہ یا رسُول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ ؐ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اُٹھنے لگے ، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے |
4 | اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دُنیا میں ہر وقت ہر مرتبہء تمدّن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے اُن آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریقِ توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قُطبَین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علمِ جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اُس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن ، جس معنی میں ہم خطِ استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دَور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پُوری باقاعدگی کے ساتھ اُفق پر نمایاں ہوتے ہیں اور اُنہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی اُفق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دُوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیینِ اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں |
3 | اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے ۔ کسی کا خیال تھا کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ اُٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اُٹھاتے تھے۔ اِس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلُوعِ فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے
|
2 | ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر نا جائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت اُن کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے بُرا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو |
1 | یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا ، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتّصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے |