Ayats Found (7)
Surah 6 : Ayat 39
وَٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِى ٱلظُّلُمَـٰتِۗ مَن يَشَإِ ٱللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں، تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں1 اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے2
2 | خدا کا بھٹکانا یہ ہے کہ ایک جہالت پسند انسان کو آیاتِ الہٰی کے مطالعہ کی توفیق نہ بخشی جائے ، اور ایک متعصّب غیر حقیقت پسند طالب علم اگر آیاتِ الہٰی کا مشاہدہ کرے بھی تو حقیقت رسی کے نشانات اس کی آنکھ سے اوجھل رہیں اور غلط فہمیوں میں اُلجھا نے والی چیزیں اسے حق سے دُور اور دُور تر کھینچتی چلی جائیں۔ بخلاف اس کے اللہ کی ہدایت یہ ہے کہ ایک طالبِ حق کو علم کے ذرائع سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق بخشی جائے اور اللہ کی آیات میں اسے حقیقت تک پہنچنے کے نشانات ملتے چلے جائیں۔ ان تینوں کیفیات کی بکثرت مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں ۔ بکثرت انسان ایسے ہیں جن کے سامنے آفاق اور اَنفُس میں اللہ کی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح انہیں دیکھتے ہیں اور کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اور بہت سے انسان ہیں جو حیوانیات(Zoology)، نباتیات(Botany)، حیَاتیات(Biology)، ارضیات(Geology)، فلکیات(Astronomy)، عضویات (Physiology)، علم التشریح(Anatomy) اور سائنس کی دُوسری شاخوں کا مطالعہ کرتے ہیں ، تاریخ ، آثارِ قدیمہ اور عُلُومِ اجتماع (Social Science) کی تحقیق کرتے ہیں اور ایسی ایسی نشانیاں ان کے مشاہدے میں آتی ہیں جو قلب کو ایمان سے لبریز کر دیں۔ مگر چونکہ وہ مطالعہ کا آغاز ہی تعصّب کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے پیشِ نظر دنیا اور اس کے فوائد و منافع کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لیے اس مشاہدے کے دَوران میں ان کو صداقت تک پہنچانے والی کوئی نشانی نہیں ملتی، بلکہ جو نشانی بھی سامنے آتی ہے وہ انھیں اُلٹی دہریّت ، الحاد، مادّہ پرستی اور نیچر یّت ہی کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ناپید نہیں ہیں جو آنکھیں کھول کر اس کارگاہِ عالم کو دیکھتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ : برگِ درختانِ سبز در نَظَرِ ہوشیار ہر ورقے دفریست معرفتِ کردگار |
1 | مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں محض تماش بینی کا شوق نہیں ہے بلکہ فی الواقع یہ معلوم کرنے کے لیے نشانی دیکھنا چاہتے ہو کہ یہ نبی جس چیز کی طرف بُلا رہا ہے وہ امرِ حق ہے یا نہیں ، تو آنکھیں کھول کر دیکھو ، تمہارے گردو پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں ۔ زمین کے جانوروں اور ہوا کے پرندوں کی کسی ایک نوع کو لے کر اس کی زندگی پر غور کرو۔ کس طرح اس کی ساخت ٹھیک ٹھیک اس کے مناسبِ حال بنائی گئی ہے۔ کس طرح اس کی جبلّت میں اس کی فطری ضرورتوں کے عین مطابق قوتیں و دیعت کی گئی ہیں۔ کس طرح اس کی رزق رسانی کا انتطام ہو رہا ہے۔ کس طرح اس کی ایک تقدیر مقرر ہے جس کے حُدُود وہ نہ آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ کس طرح ان میں سے ایک ایک جانور اور ایک ایک چھوٹے سے چھوٹے کیڑے کی اُسی مقام پر جہاں وہ ہے، خبر گیری ، نگرانی، حفاظت اور رہمنائی کی جارہی ہے ۔ کس طرح اس سے ایک مقرر اسکیم کے مطابق کام لیا جا رہا ہے۔ کس طرح اسے ایک ضابطہ کا پابند بنا کر رکھا گیا ہے اور کس طرح اس کی پیدائش ، تناسُل ، اور موت کا سلسلہ پُوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہا ہے۔ اگر خدا کی بے شمار نشانیوں میں سے صرف اِسی ایک نشانی پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ خدا کی توحید اور اس کی صفات کا جو تصوّر یہ پیغمبر تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے اور اس تصوّر کے مطابق دُنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس رویّہ کی طرف تمہیں دعوت دے رہا ہے وہ عین حق ہے۔ لیکن تم لوگ نہ خود اپنی آنکھیں کھول کر دیکھتے ہو نہ کسی سمجھانے والے کی بات سُنتے ہو۔ جہالت کی تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہو اور چاہتے ہو کہ عجائبِ قدرت کے کرشمے دکھا کر تمہارا دل بہلایا جائے |
Surah 7 : Ayat 155
وَٱخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُۥ سَبْعِينَ رَجُلاً لِّمِيقَـٰتِنَاۖ فَلَمَّآ أَخَذَتْهُمُ ٱلرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّـٰىَۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَّآۖ إِنْ هِىَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَآءُ وَتَهْدِى مَن تَشَآءُۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَاۖ وَأَنتَ خَيْرُ ٱلْغَـٰفِرِينَ
اور اُس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں1 جب اِن لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسیٰؑ نے عرض کیا 2"اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی اِن کو اور مجھے ہلاک کرسکتے تھے کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کر دیں گے؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں ہمارے سر پرست تو آپ ہی ہیں پس ہمیں معاف کر دیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں
2 | مطلب یہ ہے کہ ہر آزمائش کا موقع انسانوں کے درمیان فیصلہ کن ہوتا ہے۔ وہ چھاج کی طرح ایک مخلوط گروہ میں سے کارآمد آدمیوں اور ناکارہ آدمیوں کو پھٹک کر الگ کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا عین مقتضیٰ ہے کہ ایسے مواقع وقتاً فوقتاً آتے رہیں۔ ان مواقع پر جو کامیابی کی راہ پاتا ہے وہ اللہ ہی کی توفیق و رہنمائی سے پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ اُس کی توفیق ورہنمائی سے محروم ہونے کی بدولت ہی ناکام ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے توفیق اور رہنمائی ملنے اور نہ ملنے کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے جو سراسر حکمت اور عدل پر مبنی ہے، لیکن بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ آدمی کا آزمائش کے مواقع پر کامیا بی کی رہ پانا یا نہ پانا اللہ کی توفیق ہو ہدایت پر منحصر ہے |
1 | یہ طلبی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ قوم کے ۷۰ نمائندے کوہ ِ سینا پر پیشی ِ خدا وندی میں حاضر ہو کر قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جرم کی معافی مانگیں اور از سرِ نو اطاعت کا عہد استوارکر یں۔ بائیبل اور تلمود میں ا س بات کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ جو تختیاں حضرت موسیٰ ؑ نے پھینک کر توڑ دی تھیں ان کے بدلے دوسری تختیاں عطاکرنے کے لیے آپ کو سینا پر بلایا گیا تھا(خروج۔باب۳۴) |
Surah 13 : Ayat 27
وَيَقُولُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌ مِّن رَّبِّهِۦۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِىٓ إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ
یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدیؐ کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں 1"اِس شخص پر اِس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری" کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے2
2 | یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اُسے زبردستی راہِ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے۔ وہ ایسے شخص کو اُنہی راستوں میں بھٹکنے کو توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سببِ ہدایت بنتے ہیں ، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتےہیں۔ شمعِ روشن بھی اُس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیر ہی کرنے کا کام دیتی ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا۔
نشانی کے مطالبے کا یہ جواب اپنی بلاغت میں بے نظیر ہے۔ وہ کہتے تھے کہ کوئی نشانی دکھاؤ تو ہمیں تمہاری صداقت کا یقین آئے، جواب میں کہا گیا کہ نادانو تمہیں راہ راست نہ ملنے کا اصل سبب نشانیوں کا فقدان نہیں ہے بلکہ تمہاری اپنی ہدایت طلبی کا فقدان ہے۔ نشانیاں تو ہر طرف بے حدو حساب پھیلی ہوئی ہیں، مگر اُن میں سے کوئی بھی تمہارے لیے نشانِ راہ نہیں بنتی، کیونکہ تم خدا کے راستے پر جانے کے خواہشمند ہی نہیں ہو۔ اب اگر کوئی اور نشانی آئے تو وہ تمہارے لیے کیسے مفید ہو سکتی ہے؟ تم شکایت کرتے ہو کہ کوئی نشانی نہیں دکھائی گئی۔ مگر جو خدا کی راہ کے طالب ہیں انہیں نشانیاں نظر آ رہی ہیں اور وہ انہیں دیکھ دیکھ کر راہ راست پا رہے ہیں۔ |
1 | اس سے پہلے آیت ۷ میں اِس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیشِ نظر رکھا جائے۔ اب دوبارہ اُن کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اُس کا جواب دیا جا رہا ہے |
Surah 14 : Ayat 4
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِۦ لِيُبَيِّنَ لَهُمْۖ فَيُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے1 پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے2، وہ بالا دست اور حکیم ہے3
3 | یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پالینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملًا خود مختار نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی بالادستی سے مغلوب ہیں۔ لیکن اللہ اپنی اس بالادستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے۔ وہ بالادست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے۔ اُس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے۔ اور جس کو راہِ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے |
2 | یعنی باوجود اِس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اُسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے ، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہر حال اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اِس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے |
1 | اس کے دومطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اُس پر اُسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے ، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض معجزہ دکھا نے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو |
Surah 16 : Ayat 93
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَلَتُسْــَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا1، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے2، اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہو کر رہے گی
2 | یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کردیتا ہے، اور کوئی راہِ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے۔ |
1 | یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور بُرے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو (جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالٰی کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالٰی کو اپنے نام نہاد ”طرف داروں“ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر ومعصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کرسکتا؟ |
Surah 35 : Ayat 8
أَفَمَن زُيِّنَ لَهُۥ سُوٓءُ عَمَلِهِۦ فَرَءَاهُ حَسَنًاۖ فَإِنَّ ٱللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَٲتٍۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِمَا يَصْنَعُونَ
(بھلا کچھ ٹھکانا ہے1 اُس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اُس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اُسے اچھا سمجھ رہا ہو؟2 حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے پس (اے نبیؐ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھلے3 جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے4
4 | اس فقرے میں آپ سے یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالٰی انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا۔ |
3 | پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ ’’اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے‘‘ صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالٰی ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو۔ اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے۔ یہ لوگ در حقیقت حضورؐ کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مد مقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے۔ دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالٰی کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود در اصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے۔ |
2 | یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں۔ ذہن نہیں بگڑا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کردیتا ہے۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں۔ |
1 | اوپر کے دو پیراگراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے۔ اب اس پیراگراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ |
Surah 74 : Ayat 31
وَمَا جَعَلْنَآ أَصْحَـٰبَ ٱلنَّارِ إِلَّا مَلَـٰٓئِكَةًۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ لِيَسْتَيْقِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَيَزْدَادَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِيمَـٰنًاۙ وَلَا يَرْتَابَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمُؤْمِنُونَۙ وَلِيَقُولَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَٱلْكَـٰفِرُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاًۚ كَذَٲلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَۚ وَمَا هِىَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
ہم1 نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں2، اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے3، تاکہ اہل کتاب کو یقین آ جائے4 اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے5، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار6 اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہو سکتا ہے7 اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے8 اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں9 جانتا اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو10
10 | یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آ جائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں |
9 | یعنی اللہ تعالی نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو ا للہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدائی کا کارخانہ اتنا وسیع وعظیم ہے کہ اس کی کسی چیز کا بھی پوراعلم حاصل کرلینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور اس کے چھوٹے سےدماغ میں سماسکے |
8 | یعنی اس طرح اللہ تعالی اپنے کلام اور ا پنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ا یک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ اسی بات کو ا یک ہٹ دھرم ، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اس کا ٹیڑھا مطلب نکال کر اسے حق سے دور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا لیتا ہے ۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی اسے ہدایت بخش دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے ۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیےاللہ اسےضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ ا للہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔ (اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: جلد اول، البقرہ ، حواشی 10، 16، 19، 20۔ النساء، حاشیہ 173۔ الانعام، حواشی 17، 28، 90۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 13۔ جلد سوم، الکہف، حاشیہ 45۔ القصص، حاشیہ 71) |
7 | اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی ۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے |
6 | قرآن مجید میں چونکہ بالعموم ’’دل کی بیماری‘‘ سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم میں صفحہ 672 ، 674 اور 680 تا 682 پر واضح کر چکے ہیں۔ دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا ا ور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھےاورہیں جو قطعیت کےساتھ خدا، آخرت، وحی، رسالت، جنت، دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں۔ اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں۔ آخرت ہو گی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا یہ محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھےاوران پر وحی آتی تھی یا نہیں۔ یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لےگیا ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر ان حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرہ برابر بھی عقل کا مادہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ ان امور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اورانہیں قطعاً خارج از امکان قرار دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے |
5 | یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہرآزمائش کے موقع پرجب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہےاورشک وانکار یا اطاعت سے فراریا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین واعتماد اوراطاعت وفرمانبرداری اور دین سےوفاداری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کےایمان کوبالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن ، جلد اول، آل عمران، آیت 173۔ جلد دوم، الانفال، آیت 2، حاشیہ 6۔ التوبہ، آیات 124 ۔ 125۔ حاشیہ 125۔ جلد چہارم، الاحزاب ، آیت 22، حاشیہ 83۔ جلد پنجم، الفتح، آیت 4، حاشیہ 7) |
4 | بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالی ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول یہ کہ یہود و نصاری کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد 19 ہے۔ دوسرے قرآن مجید میں بکثرت ایسی باتیں ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہ باتیں ان کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سے دوزخ کے 19 فرشتوں کا ذکر سن کر میراخوب مذاق اڑایا جائے گا، لیکن اس کے باوجود جو بات اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق و استہزاء کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شان سے ناواقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوکا تولوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہو یا نا پسند۔ اس بنا پر اہل کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی وا ضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ طرز عمل بارہا ظاہرہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرہ برابر پروا نہ کی اس حیرت انگیز قصے کو سن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے |
3 | یعنی بظاہر تو اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد بیان کی جاتی۔ لیکن ہم نے ان کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں کے با رے میں، یا وحی ورسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد و حساب مجرم جنوں اورانسانوں کو صرف 19 سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فرداََ فرداََ ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فورا کھل کر باہر آ جائے گا |
2 | یعنی ان کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالی نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں |
1 | یہاں سے لے کر ’’تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر ان معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے حضورؐ کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف 19 ہو گی، اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف سے ہم سے یہ کہا جا رہا کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفراورکبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف 19 کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قر یش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا، ’’بھائیو، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ا یک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے‘‘؟ بنی جمح کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے’’ 17 سے تو میں اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا‘‘۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں |