Ayats Found (3)
Surah 4 : Ayat 83
وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ ٱلْأَمْنِ أَوِ ٱلْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِۦۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى ٱلرَّسُولِ وَإِلَىٰٓ أُوْلِى ٱلْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ ٱلَّذِينَ يَسْتَنۢبِطُونَهُۥ مِنْهُمْۗ وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ لَٱتَّبَعْتُمُ ٱلشَّيْطَـٰنَ إِلَّا قَلِيلاً
یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں1 تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے
1 | وہ چونکہ ہنگامہ کا موقعہ تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اُڑ رہی تھیں۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعیں آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی ۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبریں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سُن کر غفلت میں مبتلا ہوجاتے۔ ان افواہوں میں وہ لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے جو محض ہنگامہ پسند تھے، جن کے لیے اسلام اور جاہلیت کا یہ معرکہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا، جنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ اس قسم کی غیر ذمّہ دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دُوررس ہوتے ہیں۔ ان کے کان میں کہاں کوبھنک پڑجاتی ہے اسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے۔ انہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو اُن کو پہنچے اسے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا کر خاموش ہو جائیں |
Surah 33 : Ayat 20
يَحْسَبُونَ ٱلْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُواْۖ وَإِن يَأْتِ ٱلْأَحْزَابُ يَوَدُّواْ لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِى ٱلْأَعْرَابِ يَسْــَٔلُونَ عَنْ أَنۢبَآئِكُمْۖ وَلَوْ كَانُواْ فِيكُم مَّا قَـٰتَلُوٓاْ إِلَّا قَلِيلاً
یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ آور ہو جائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اُس موقع پر یہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے
Surah 33 : Ayat 21
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُواْ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْأَخِرَ وَذَكَرَ ٱللَّهَ كَثِيرًا
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا1، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے2
2 | یعنی اللہ سے غافل آدمی کے لیے تو یہ زندگی نمونہ نہیں ہے مگر اُس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو کبھی کبھار اتفاقاً خدا کا نام لے لینے والا نہیں بلکہ کثرت سے اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے والا ہو۔اسی طرح یہ زندگی اُس شخص کے لیے تو نمونہ نہیں ہے جو اللہ سے کوئی اُمّید اور آخرت کے آنے کی کوئی توقع نہ رکھتا ہو، مگر اُس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا اُمیدوار ہو اور جسے یہ بھی خیال ہو کہ کوئی آخرت آنے والی ہے جہاں اس کی بھلائی کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کا رویّہ رسُولِؐ خُدا کے رویّے سے کس حد تک قریب تر رہا ہے |
1 | جس سیاق و سباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسُولؐ پاک کے طرزِ عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصُود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان واسلام اوراتباعِ رسول کے مدّعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو۔ خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تواس کی پیروؤں کی طرف سے اِن کمزوریوں کا اظہار معقول ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوستوں نے اُٹھائی ہو اورآپؐ نے نہ اُٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اُٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصّہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دَوران میں آپؐ ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔ بنی قریظہ کی غدّاری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچّے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچّے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِ عظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپؐ کے اتباع کا مدّعی تھا اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو موقع محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اس کے الفاظ عام ہی اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔ |