Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 26
۞ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسْتَحْىِۦٓ أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاًۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرًا وَيَهْدِى بِهِۦ كَثِيرًاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلْفَـٰسِقِينَ
ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے، جو فاسق ہیں3
3 | فاسق: نافرمان، اطاعت کی حد سے نِکل جانے والا |
Surah 10 : Ayat 42
وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَۚ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ وَلَوْ كَانُواْ لَا يَعْقِلُونَ
ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سنتے ہیں، مگر کیا تو بہروں کو سنائیگا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟1
1 | ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میں معنی کی طرف توجہ ہو اور یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں، اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات، خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو، مان کر نہ دیں گے، وہ سب کچھ سن کر بھی نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چَرنے چُگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کےبہرے ہوتے ہیں۔ |
Surah 10 : Ayat 43
وَمِنْهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَۚ أَفَأَنتَ تَهْدِى ٱلْعُمْىَ وَلَوْ كَانُواْ لَا يُبْصِرُونَ
اِن میں بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں، مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟1
1 | یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہوتو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔ ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے، تاکہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُن کی اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلارہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا ہو کہ ان کے طریقِ زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریقِ زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیرخواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سُنی اَن سُنی کیے جا رہے ہوں، اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھِیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہو گا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہو گی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے۔ |
Surah 15 : Ayat 10
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِى شِيَعِ ٱلْأَوَّلِينَ
اے محمدؐ، ہم تم سے پہلے بہت سی گزری ہوئی قوموں میں رسول بھیج چکے ہیں
Surah 15 : Ayat 13
لَا يُؤْمِنُونَ بِهِۦۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ ٱلْأَوَّلِينَ
وہ اِس پر ایمان نہیں لایا کرتے1 قدیم سے اِس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے
1 | عام طور پر مترجمین و مفسرین نے نَسْلُکُہکی ضمیر استہزاء کی طرف اور لَا یُوْمِنُوْنَ بِہٖ کی ضمیر ذکر کی طرف پھیری ہے، اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ”ہم اسی طرح اس استہزاء کو مجرمین کے دلوں میں داخل کرتے ہیں اور وہ اس ذکر پر ایمان نہیں لاتے“۔ اگرچہ نحوی قاعدے کے لحاظ سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، لیکن ہمارے نزدیک نحو کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح یہ ہے کہ دونوں ضمیریں ذکر کی طرف پھیری جائیں۔ سلک کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو دوسری چیز میں چلانے ، گزارنے اور پرونے کے ہیں، جیسے دھاگے کو سوئی کے ناکے میں گزارنا۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تو یہ ذکر قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترتا ہے، مگر مجرموں کے دلوں میں یہ شتابہ بن کر لگتا ہے اور اُس کے اندر اِسے سن کر ایسی آگ بھڑک اُٹھتی ہے گویا کہ ایک گرم سلاخ تھی جو سینے کے پا ر ہو گئی |
Surah 16 : Ayat 37
إِن تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَٮٰهُمْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَن يُضِلُّۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِينَ
اے محمدؐ، تم چاہے اِن کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو، مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کے لوگوں کی مدد کوئی نہیں کر سکتا
Surah 33 : Ayat 4
مَّا جَعَلَ ٱللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِى جَوْفِهِۦۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَٲجَكُمُ ٱلَّــٰٓــِٔى تُظَـٰهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَـٰتِكُمْۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْۚ ذَٲلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٲهِكُمْۖ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى ٱلسَّبِيلَ
اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں1، نہ اس نے تم لوگوں کی اُن بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے2، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے3 یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے
3 | یہ اصل مقصود کلام ہے۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے۔ |
2 | ’’ظِہار‘‘ عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ ’’تیری پیٹھ میرے لئے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے‘‘۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی ہے کیوں کہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے۔ محض زبان سے ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے۔ (یہاں ظِہار کی متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس کا قانون سورہ مجادلہ۔ آیات ۲۔ ۴ میں بیان کیا گیا ہے)۔ |
1 | یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق ، سچا اور جھوٹا ، بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا۔ اس کے سینے میں دو دِل نہیں ہیں کہ ایک دِل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بے خوفی۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہو گا یا منافق۔ یا تو وہ کافر ہو گا یا مسلم۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق کو مومن تو اس سے حقیقتِ نفس الامری نہ بدل جائے گی۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی۔ |