Ayats Found (5)
Surah 16 : Ayat 81
وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَـٰلاً وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْجِبَالِ أَكْنَـٰنًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَٲبِيلَ تَقِيكُمُ ٱلْحَرَّ وَسَرَٲبِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْۚ كَذَٲلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ
اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں1 اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں2 اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے3 شاید کہ تم فرماں بردار بنو
3 | اتمامِ حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جُزرسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے۔ مثلًا اِسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سروسامان پیدا کیا، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یا مثلاً تغذیے کے معاملہ کو لیجیے۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزئی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالٰی نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے، اُن کا اگرکوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسامِ غذا اوراشیاء ِغذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلّد بن جائے۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اِتمام کر رکھا ہے۔ |
1 | سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجہ ٔکمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی، یا پھراسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی بادِ سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے ممالک میں اگرآدمی سر، گردن، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اُسے جھُلس کر رکھ دے، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے۔ |
Surah 31 : Ayat 20
أَلَمْ تَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُۥ ظَـٰهِرَةً وَبَاطِنَةًۗ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَـٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَـٰبٍ مُّنِيرٍ
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں1 اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں2 تم پر تمام کر دی ہیں؟ اِس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں3 بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب4
4 | یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلا وہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سے اسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟ وغیرہ |
3 | یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟اکیلا وہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟اپنی مخلوقات سےاسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟ وغیرہ |
2 | کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں، یا جو اس کے علم میں ہیں۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے۔ بے حد وحساب چیزیں ہیں جوانسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دُنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے، اس کی رز ق رسانی کے لیے، اس کے نشو و نما کے لیے، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلےاس سے بالکل مخفی تھیں، اورآج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سےاب تک پردہ نہیں اٹھا ہے۔ |
1 | بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب۔ |
Surah 31 : Ayat 31
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱلْفُلْكَ تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِنِعْمَتِ ٱللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ ءَايَـٰتِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے؟1 در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو2
2 | یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق اصل کرکے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار(بڑے صبر کرنے والے) ہوں۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو۔ گوارا اورناگوارا، سخت اور نرم، اچھے اور بُرے، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ بُرا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑگڑا نے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھو ل گئے، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کوگالیاں دینا شروع کردیں۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور(بڑے شکر کرنے والے) ہوں۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکروسپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں۔ |
1 | در حقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہراُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ |
Surah 53 : Ayat 43
وَأَنَّهُۥ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ
اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رلایا1
1 | یعنی خوشی اور غم، دونوں کے اسباب اسی کی طرف سے ہیں۔ اچھی اور بری قسمت کا سر رشتہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ کسی کو اگر راحت و مسرت نصیب ہوئی ہے تو اسی کے دینے سے ہوئی ہے ۔اور کسی کو مصائب و آلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مشیت سے پیش آیا ہے ۔ کوئی دوسری ہستی اس کائنات میں ایسی نہیں ہے جو قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں کسی قسم کا دخل رکھتی ہو |
Surah 53 : Ayat 55
فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارَىٰ
پس 1اے مخاطب، اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں تو شک کرے گا؟2"
2 | اصل میں لفظ تَتَمَاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی شک کرنے کے بھی ہیں اور جھگڑنے کے بھی خطاب ہر سامع سے ہے ۔ جو شخص بھی اس کلام کو سن رہا ہو اس کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں پیغمبروں سے جھگڑا کرنے کا جو انجام انسانی تاریخ میں ہو چکا ہے ، کیا اس کے بعد بھی تو اسی حماقت کا ارتکاب کرے گا؟ پچھلی قوموں نے یہی تو شک کیا تھا کہ جن نعمتوں سے ہم اس دنیا میں مستفید ہو رہے ہیں یہ خداۓ واحد کی نعمتیں ہیں، یا کوئی اور بھی ان کے مہیا کرنے میں شریک ہے ، یا یہ کسی کی فراہم کی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ فراہم ہو گئی ہیں۔ اسی شک کی بنا پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے جھگڑا کیا تھا۔ انبیاء ان سے کہتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں تمہیں خدا نے ، اور اکیلے ایک ہی خدا نے عطا کی ہیں، اس لیے اسی کا تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اسی کی تم کو بندگی بجا لانی چاہیے ۔ مگر وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تھے اور اسی بات پر انبیاء سے جھگڑتے تھے ۔ اب کیا تجھے تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ قومیں اپنے اس شک اور اس جھگڑے کا کیا انجام دیکھ چکی ہیں؟ کیا تو بھی وہی شک اور وہی جھگڑا کرے گا جو دوسروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے ؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح کے لوگ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے گزر چکے تھے اور قوم لوط خود حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں مبتلاۓ عذاب ہوئی تھی۔ اس لیے اس عبرت کے صحف ابراہیم کا ایک حصہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے |
1 | بعض مفسرین کے نزدیک یہ فقرہ بھی صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ کی عبادت کا ایک حصہ ہے ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ فَغَشّٰھَا مَا غَشّیٰ پر وہ عبارت ختم ہو گئی، یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ سیاق کلام کو دیکھتے ہوۓ پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ بعد کی یہ عبارت کہ ’’ یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے ‘‘، اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس سے پہلے کی تمام عبارت پچھلی تنبیہات میں سے ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ کے صحیفوں میں ارشاد ہوئی تھیں |