Ayats Found (3)
Surah 3 : Ayat 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ
(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں
Surah 27 : Ayat 32
قَالَتْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمَلَؤُاْ أَفْتُونِى فِىٓ أَمْرِى مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ
(خط سُنا کر) ملکہ نے کہا "“اے سردارانِ قوم میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں1"
1 | اصل الفاظ میں حتّٰی تشھدُون، جب تک کہ تم حاضر نہ ہو، تم گواہ نہ ہو۔ یعنی اہم معاملات میں فیصلہ کرتے وقت تم لوگوں کی موجودگی میرے نزدیک ضروری ہے، اور یہ بھی کہ جو فیصلہ میں کرون اس کے صحیح ہونے کی تم شہادت دو۔ اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قوم سبا میں بادشاہ ہی نظام تو تھا مگر وہ استبدادی نظام نہ تھا، بلکہ فرماں روائے وقت معاملات کے فیصلے اعیان کے مشورے سے کرتاتھا۔ |
Surah 42 : Ayat 38
وَٱلَّذِينَ ٱسْتَجَابُواْ لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں1، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں2، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں3
3 | اس کے تین مطلب ہیں : ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں ، اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ ہیں مارتے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوۓ رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں ، سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے۔ پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو ’’ اپنے دیے ہوۓ رزق ‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے۔ نا پاک اور حرام طریقوں سے کماۓ ہوۓ رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے ، سینت سَینت کر رکھنے اور اس پر مار زر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذاب پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے ، بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں |
2 | اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے ، اور سورہ آل عمران (آیت 159) میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے ، اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوۓ ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جاۓ تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راۓ سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کرینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی راۓ لی جاۓ، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جاۓ۔ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے ، یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کی حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں ، اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے ، اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے۔ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس طرح کو جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو، یا نا کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے ، اور اگر نا دانستہ کوئی غلطی ہو بھی جاۓ تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے۔ یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے ، مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جاۓ۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جاۓ۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راۓ لی جاۓ۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جاۓ، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب راۓ لوگوں کے مشورے سے چلاۓ جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بناۓ رکھنا چاہے۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جاۓ اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی طلب کرے ، اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق راۓ دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے لوث ہو، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے ، اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے : اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار راۓ کی پوری آزادی حاصل ہو، اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ انکے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ۓ جا رہے ہیں ، اور انہیں اس امر کا بھی پورا ح حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکیں ، اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔ دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جاۓ ، اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔ سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جاسکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر ، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔ چہارم یہ کو مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق راۓ دیں ، اور اس طرح کے اظہار راۓ کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوۓ ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف راۓ دیں ، وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرَھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کی پیروی۔ پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق راۓ) سے دیا جاۓ، یا جسے ان کے جمہور(اکثریت ) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جاۓ۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے ‘‘ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔‘‘ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے مہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔ اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے ، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ’’ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ‘‘ ، اور ’’تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے ، اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جاۓ تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں |
1 | لفظی ترجمہ ہو گا ’’ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ‘‘ یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں ، اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں |