Ayats Found (2)
Surah 14 : Ayat 33
وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ دَآئِبَيْنِۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ
جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا1
1 | تمہارے لیے مسخر کیا“ کو عام طور پر لوگوں کو غلطی سے”تمہارے تابع کر دیا“ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس مضمون کی آیات سے عجیب عجیب معنی پیدا کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض لوگ تو یہاں تک سمجھ بیٹھے کہ اِن آیات کی رو سے تسخیر سمٰوات و ارض انسان کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ انسان کے لیے ان چیزوں کو مسخر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے قوانین کا پابند بنا رکھا ہے جن کی بدولت وہ انسان کے لیے نافع ہو گئی ہیں۔ کشتی اگر فطرت کےچند مخصوص قوانین کی پابند نہ ہوتی تو انسان کبھی بحری سفر نہ کر سکتا۔ دریا اگر مخصوص قوانین میں جکڑے ہوئَے نہ ہوتے تو کبھی اُن سے نہریں نہ نکالی جا سکتیں۔ سورج اور چاند اور روز و شب اگر ضابطوں میں کسے ہوئے نہ ہوتے تو یہاں زندگی ہی ممکن نہ ہوتی کجا کہ ایک پھلتا پھولتا انسانی تمدن وجود میں آسکتا۔ |
Surah 16 : Ayat 18
وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے1
1 | پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے، اس لیے کہ وہ اس قدرعیاں ہے اور اس کے بیان کی حاجت نہیں۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معاً بعد اس کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں، بے وفائیوں، غداریوں اور سرکشیوں سے دے رہاہے، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صد ہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات، صافت، اختیارات، حقوق، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رُکتا۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سرکشی و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں، پھر مدت العمراس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ اُن پر جاری رہتا ہے۔ |