Ayats Found (6)
Surah 4 : Ayat 148
۞ لَّا يُحِبُّ ٱللَّهُ ٱلْجَهْرَ بِٱلسُّوٓءِ مِنَ ٱلْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
Surah 22 : Ayat 39
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَـٰتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواْۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں1، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے2
2 | یعنی اس کے باوجود کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں ، اللہ ان کو تمام مشرکین عرب پر غالب کر سکتا ہے۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی، مسلمانوں کی ساتی طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے۔ اور اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گۓ۔ اس موقع پر یہ ارشاد کہ ’’ اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے ‘‘ نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے کر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ابھارا جا رہا تھا۔ اور کفار کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ۔ در اصل ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ |
1 | جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے ، یہ قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں اولین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی۔ بعد میں سورہ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا ، یعنی : وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَا تِلُوْ نَ کُمْ ، (آیت 190)اور وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِتُمُوْ ھُمْ وَاَخْرِجُوْ ھَمْ مِّن حَیْثَ اَخْرَجُوْ کُمْ ( آیت 191) اور وَقَاتِلُوْ ھُمْ حتیٰ لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّ یْنُ لِلہِ (آیت 193) اور : کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (آیت 216) اور : وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَعْلَمُوْ آ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ O (آیت 244 ) اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ 1 ھ میں نازل ہوئی ، اور حکم جنگ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان 2 ھ میں نازل ہوا |
Surah 22 : Ayat 40
ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَـٰرِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّآ أَن يَقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُۗ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَٲمِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَٲتٌ وَمَسَـٰجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا ٱسْمُ ٱللَّهِ كَثِيرًاۗ وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے1 صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے 2"ہمارا رب اللہ ہے" اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں3، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں4 اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے5 اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے
5 | یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلق خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دین حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی و جہد کرتے ہیں وہ در اصل اللہ کے مدد گار ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، آل عمران، حاشیہ 50 |
4 | یعنی اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا ، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست، اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِالْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ‘‘۔(آیت 251) |
3 | اصل میں سَوَأمِعُ اور بِیَعٌ اور سَلَواتٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیررہتے ہوں۔ بیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صلوات سے مرد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute) اور (Salutation) اسی سے نکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو |
2 | جس ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گۓ اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں : حضرت صہیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار قریش نے ان سے کہا کہ تم یہاں خالی ہاتھ آۓ تھے اور اب خوب مال دار ہو گۓ ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گۓ اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضرت ام سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مغیرہ (ام سلمہ کے خاندان ) نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے پھرتے رہو، مگر ہماری لڑکی کو لے کر نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گۓ۔ پھر بنی عبدالاسد (ابو سلمہ کے خاندان والے ) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے ، اسے ہمارے حوالے کرو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال تک حضرت ام سلمہ بچے اور شوہر کے غم میں تڑپتی رہیں ، اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جاری تھی جن سے مسلح قافلے بھی گزرتے ہوۓ ڈرتے تھے۔ عیاش بن ربیعہ ، ابو جہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گۓ۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا اور بات بنائی کہ اماں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم بس چل کر انہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ ’’ اے اہل مکہ۔ اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے ‘‘۔ کافی مدت تک یہ بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کی خیریت سے نہ نکلنے دیا |
1 | یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورہ حج کا یہ حصہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے |
Surah 26 : Ayat 227
إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَذَكَرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱنتَصَرُواْ مِنۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُواْۗ وَسَيَعْلَمُ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَىَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا1، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں2
2 | ظلم کرنے والوں سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے سراسر ہٹ دھرمی کی راہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر شاعری اور کہانت اور ساحری اور جنون کی تہمتیں لگاتے پھرتے تھے تاکہ نا واقف لوگ آپ کی دعوت سے بد گمان ہوں اور آپ کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دیں |
1 | یہاں شعراء کی اس عام مذمت سے جو اوپر بیان ہوئی، ان شعراء کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : اول یہ کہ وہ مومن ہوں ، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں ، بد کار اور فاسق و فاجر نہ ہوں ، اخلاق کی بندشوں سے آزاد ہو کر جھک نہ مارتے پھریں۔ تیسرے یہ کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں ، اپنے عام حالات اور اوقات میں بھی، اور اپنے کلام میں بھی۔ یہ نہ ہو کہ شخصی زندگی تو زہد و تقویٰ سے آراستہ ہے مگر کلام سراسر رندی و ہوسناکی سے لبریز۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ شعر میں تو بڑی حکمت و معرفت کی باتیں بگھاری جا رہی ہیں مگر ذاتی زندگی کو دیکھیے تو یاد خدا کے سارے آثار سے خالی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حالتیں یکساں مذموم ہیں۔ ایک پسندیدہ شاعر وہی ہے جس کی نجی زندگی بھی خدا کی یاد سے معمور ہو اور شاعرانہ قابلیتیں بھی اس راہ میں وقف رہیں جو خدا سے غافل لوگوں کی نہیں بلکہ خدا شناس، خدا دوست اور خدا پرست لوگوں کی راہ ہے۔ چوتھی صفت ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں ، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں ، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔ ہروقت گھگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار و مشرکین کے شاعر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جوب دینے کے لیے حضورؐ خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ کعب بن مالکؓ سے آپ نے فرمایا : اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لہوا شد علیہم من النبل، ’’ ان کی ہجو کہا، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے ‘‘۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا اھجھم وجبریل معک، اور قلو روح القدس معک، ’’ ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے ‘‘۔ ’’کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے ‘‘ آپ کا ارشاد تھا کہ : ان المؤمن یجاھدبہ بفہٖ و لسانہٖ۔ ’’مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی‘‘ |
Surah 42 : Ayat 39
وَٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَابَهُمُ ٱلْبَغْىُ هُمْ يَنتَصِرُونَ
اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں1
1 | یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی او عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بنکر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کر دیں ، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزریں ، اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہو جاۓ تو اس سے چشم پوشی کر جائیں ، لیکن کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور اس کے دانت کھٹے کر دیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے |
Surah 42 : Ayat 41
وَلَمَنِ ٱنتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِۦ فَأُوْلَـٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ
اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی