Ayats Found (2)
Surah 3 : Ayat 145
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ كِتَـٰبًا مُّؤَجَّلاًۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا نُؤْتِهِۦ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ ٱلْأَخِرَةِ نُؤْتِهِۦ مِنْهَاۚ وَسَنَجْزِى ٱلشَّـٰكِرِينَ
کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے1 جو شخص ثواب دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں3 کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے
3 | شکر کرنے والوں“سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اِس نعمت کے قدر شناس ہوں کہ اُن نے دین کی صحیح تعلیم دے کر انھیں دنیا اور اس کی محدود زندگی سے بہت زیادہ وسیع ، ایک ناپیدا کنار عالَم کی خبر دی، اور انھیں اس حقیقت سے آگاہی بخشی کہ انسانی سعی و عمل کے نتائج صرف اس دنیا کی چند سالہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس زندگی کے بعد ایک دُوسرے عالَم تک ان کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔ یہ وسعتِ نظر اور یہ دُوربینی و عاقبت اندیشی حاصل ہوجانے کے بد جوشخص اپنی کوششوں اور محنتوں کو اِس دُنیوی زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں بار آور ہوتے نہ دیکھے ، یا ان کا برعکس نتیجہ نکلتا دیکھے ، اور اس کے باوجود اللہ کے بھروسہ پر وہ کام کرتا چلا جائے جس کے متعلق اللہ نے اسے یقین دلایا ہے کہ بہرحال آخرت میں اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلے گا، وہ شکر گزار بندہ ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اس کے بعد بھی دنیا پرستی کی تنگ نظری میں مُبتلا رہیں، جن کا حال یہ ہو کہ دنیا میں جن غلط کوششوں کے بظاہر اچھے نتائج نکلتے نظر آئیں ان کی طرف وہ آخرت کے بُرے نتائج کی پروا کیے بغیر جھُک پڑیں، اورجن صحیح کوششوں کے یہاں بار آور ہونے کی اُمید نہ ہو، یا جن سے یہاں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، اُن میں آخرت کے نتائج ِ خیر کی اُمید پر اپنا وقت ، اپنے مال اور اپنی قوتیں صرف کرنے کے لیے تیار ہوں، وہ ناشکرے ہیں اور اُس علم کے ناقدر شناس ہیں جو اللہ نے انھیں بخشا ہے |
1 | اس سے یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ موت کے خوف سے تمہارا بھاگنا فضُول ہے۔ کوئی شخص نہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے وقت سے پہلے مر سکتا ہے اور نہ اس کے بعد جی سکتاہے۔لہٰذا تم کو فکر موت سے بچنے کی نہیں بلکہ اس بات کی ہونی چاہیے کہ زندگی کی جو مُہلت بھی تمہیں حاصل ہے اس میں تمہاری سعی و جہد کا مقصُود کیا ہے، دُنیا یا آخرت |
Surah 4 : Ayat 134
مَّن كَانَ يُرِيدُ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا فَعِندَ ٱللَّهِ ثَوَابُ ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعَۢا بَصِيرًا
جو شخص محض ثواب دنیا کا طالب ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے پاس ثواب دنیا بھی ہے اور ثواب آخرت بھی، اور اللہ سمیع و بصیر ہے1
1 | بالعموم قانونی احکام بیان کرنے کے بعد ، اور بالخصوص تمدّن و معاشرت کے اُن پہلووں کی اصلاح پر زور دینے کے بعد جن میں انسان اکثر ظلم کا ارتکاب کرتا رہا ہے، اللہ تعالٰی اِس قسم کے چند پُر اثر جملوں میں ایک مختصر وعظ ضرور فرمایا کرتا ہے اور اس سے مقصُود یہ ہوتا ہے کہ نفوس کو ان احکام کی پابندی پر آمادہ کیا جائے۔ اوپر چونکہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ انصاف اور حسنِ سلوک کی ہدایت کی گئی ہے لہٰذا اس کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ چند باتیں اہلِ ایمان کے ذہن نشین کر دی جائیں: ایک یہ کہ تم کبھی اِس بھُلاوے میں نہ رہنا کہ کسی کی قسمت کا بنانا اور بگاڑنا تمہارے ہاتھ میں ہے ، اگر تم اُس سے ہاتھ کھینچ لو گے تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا۔ نہیں، تمہاری اور اس کی سب کی قسمتوں کا مالک اللہ ہے اور اللہ کے پاس اپنے کسی بندے یا بندی کی مدد کا ایک تم ہی واحد ذریعہ نہیں ہو۔ اس مالک زمین و آسمان کے ذرائع بے حد وسیع ہیں اور وہ اپنے ذرائع سے کام لینے کی حکمت بھی رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمہیں اور تمہاری طرح پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کو ہمیشہ یہی ہدایت کی جاتی رہی ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ کام کرو۔ اس ہدایت کی پیروی میں تمہاری اپنی فلاح ہے ، خدا کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر تم اس کی خلاف ورزی کرو گے تو پچھلی تمام اُمتوں نے نافرمانیاں کر کے خدا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو تم بگاڑ سکو گے۔ اُس فرمانروا ئے کائنات کو نہ پہلے کسی کی پروا تھی نہ اب تمہاری پروا ہے۔ اس کے امر سے انحراف کرو گے تو وہ تم کو ہٹا کر کسی دُوسری قوم کو سر بلند کر دے گا اور تمہارے ہٹ جانے سے اس کی سلطنت کی رونق میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ تیسرے یہ کہ خدا کے پاس دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے فائدے بھی ، عارضی اور وقتی فائدے بھی ہیں، پائیدار اور دائمی فائدے بھی۔ اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلے اور ہمت کی بات ہے کہ تم اُس سے کس قسم کے فائدے چاہتے ہو۔ اگر تم محض دنیا کے چند روزہ فائدوں ہی پر ریجھتے ہو اور ان کی خاطر ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر دینے کے لیے تیار ہو تو خدا یہ کچھ تم کو یہیں اور ابھی دے دے گا، مگر پھر آخرت کے ابدی فائدوں میں تمہارا کوئی حصّہ نہ رہے گا۔ دریا تو تمہاری کھیتی کو ابد تک سیراب کرنے کے لیے تیار ہے، مگر یہ تمہارے اپنے ظرف کی تنگی اور حوصلہ کی پستی ہے کہ صرف ایک فصل کی سیرابی کو ابدی خشک سالی کی قیمت پر خریدتے ہو۔ کچھ ظرف میں وسعت ہو تو اطاعت و بندگی کا وہ راستہ اختیار کر و جس سے دُنیا اور آخرت دونوں کے فائدے تمہارے حصّہ میں آئیں۔ آخر میں فرمایا اللہ سمیع و بصیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اندھا اور بہرا نہیں ہے کہ کسی شاہِ بے خبر کی طرح اندھا دُھند کام کرے اور اپنی عطا ؤ بخشش میں بھَلے اور بُرے کے درمیان کوئی تمیز نہ کرے۔ وہ پُوری با خبری کے ساتھ اپنی اِس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ ہر ایک کے ظرف اور حوصلے پر اس کی نگاہ ہے۔ ہر ایک کے اوصاف کو وہ جانتا ہے۔ اُسے خوب معلوم ہے کہ تم میں سے کون کس راہ میں اپنی محنتیں اور کوششیں صرف کر راہ ہے۔ تم اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے ان بخششوں کی اُمید نہیں کر سکتے جو اس نے صرف فرماں برداری ہی کے لیے مخصُوص کی ہیں |