Ayats Found (2)
Surah 2 : Ayat 143
وَكَذَٲلِكَ جَعَلْنَـٰكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًاۗ وَمَا جَعَلْنَا ٱلْقِبْلَةَ ٱلَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهُۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِٱلنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک 1"امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے2 یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے
2 | یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں، اور کون ہیں جو اِن بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں۔ ایک طرف اہلِ عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اِس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں، وہ اُس راستے پر کیسے چل سکتے تھے، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں، وہ الگ ہو جائیں۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں، وہ بھی الگ ہو جاءیں۔ اِس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے، محض خدا کے پرستار تھے |
1 | یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ”اسی طرح“ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اُس رہنمائی کی طرف بھی، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اِس مرتبے پر پہنچے کہ ” اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے ، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دُنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔ ”اُمتِ وَسَط“ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہواور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط“ اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا ، اُس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اُسے دی تھی ، وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں ، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دُنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی ، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اِس اُمّت کو بھی تمام دُنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتا ؤ ، ہر چیز کو دیکھ کر دُنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی، حتّٰی کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دُنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت ، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی ، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دُنیا میں معصیت ، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے |
Surah 5 : Ayat 12
۞ وَلَقَدْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ ٱثْنَىْ عَشَرَ نَقِيبًاۖ وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مَعَكُمْۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَيْتُمُ ٱلزَّكَوٲةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِى وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّـَٔـاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٲلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ
اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب1 مقرر کیے تھے اور ان سے کہا تھا کہ 2"میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے3 تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا4 اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل5 گم کر دی"
5 | یعنی اُس نے”سَوَا ء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسّط و اعتدال کی شاہ راہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پُورا مفہُوم ادا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جُوں کا تُوں لے لیا ہے۔ اِس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالِم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں، خواہشیں ہیں، جذبات اور رُحجانات ہیں، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، رُوح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدّن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامانِ زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدّن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پُورے عرصۂ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے، اس کے سارے جذبات و رُحجانات میں توازن قائم رہے، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پُورے ہوں، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادّی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدّنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلووں میں سے کوئی ایک پہلو، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلّط ہو جاتا ہے کہ دُسرے پہلووں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے۔ اور اس کی اِس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حُدُود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شرُوع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ اُن کے ساتھ انصاف ہو۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رُونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبادیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصُوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رُخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دُوسرے پہلووں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے۔ اِس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دُوسرے کنارے کی طرف ڈُھلکتی چلی جاتی ہے۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں، خطِ منحنی کی شکل میں واقع ہیں، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دُوسری غلط سمت کی طرف مُڑ جاتے ہیں۔ اِن بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ، اس کے تمام جذبات و رُحجانات کے ساتھ، اور اس کی رُوح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ، اوراس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پُورا پُورا انصاف کیا گیا ہو، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ، کوئی کجی، کِسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دُوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامُرادی کے لیے سخت ضرورت ہے۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اُس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہ راہ کو ڈھونڈتی ہے۔مگر انسان خود اس شاہ راہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اس کی طرف صرف خداہ راہ نمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اِس راہِ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراطِ مستقیم کہتا ہے۔ یہ شاہ راہ دُنیا کی اِس زندگی سے لے کر آخرت کی دُوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رَو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا، وہ یہاں غلط ہیں، غلط رَو اور غلط کار ہے، اور آخرت میں لامحالہ اُسے دوزخ میں جانا ہے، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے بعض نا دان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جا رہی ہے، یہ غلط نتیجہ نِکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“(Dialectical Process) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( Thesis ) اُسے ایک رُخ پر بہا لے جائے، پھر اِس کے جواب میں دُوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (Antithesis) اُسے دُوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج (Synthesis) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اُس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دُور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دُوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے۔ جُوں جُوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اُسے دُوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دُوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دُوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دُوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا |
4 | کسی سے اُس کی بُرائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہِ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی بُرائیوں سے ، اور اس کا طرزِ زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیتِ مجمُوعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ بُرائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالٰی اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سےساقط کر دے گا، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بُنیادی اِصلاح قبول کر لی ہو اس کی جُزئی اور ضمنی بُرائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالٰی سخت گیر نہیں ہے |
3 | یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے۔ چونکہ اللہ تعالٰی اُس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے، کئی گُنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ ہو، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوصِ وحُسنِ نیت کے ساتھ خرچ کی جائے |
2 | یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہو |
1 | نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالٰی نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگرانِ کار کی قرار دیتا ہے |