Ayats Found (4)
Surah 31 : Ayat 6
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًاۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے1 جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے2 تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے3 اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے4 ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے5
5 | یہ سزا ان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا۔ |
4 | یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوا اس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اور ان سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جا سکتی۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہو سکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے ک اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِر رہے۔ کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریاد رسی اور حاجت روائی کر سکے؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کر سکتے ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟ بگڑتی وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بنا سکتا ہو۔ |
3 | ’’علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’خریدتا ہے‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’بھٹکادے‘‘ کے ساتھ بھی۔اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انھیں حاصل کر رہا ہے۔اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھا ہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔ |
2 | اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے۔ لعنت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے، مثلاً گپ، خرافات، ہنسی مذاق، داستانیں، افسانے اور ناول، گانا بجانا اور اسی طرح کی دوسری چیزیں۔ لہو الحدیث ’’خریدنے‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ و سلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر ہے، شاعر ہے، مجنوں ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں؟ کیا لوگوں کو جُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں (سیرۃ ابن ہشام ،ج ۱،ص۳۲۰۔۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتا کہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔ لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء،’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ، حاکم بہقی)۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، مجاہد، عِکرمہ، سعید بن جُبیر، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں۔ ابن ابی جریر، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمہؓ باہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے۔‘‘ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے ‘‘۔ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے، اور ان کی قیمت حرام ہے۔‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْیَّشْترِیْلَھْوالْحَدِیثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒ کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا من خلس الیٰ قینۃ یسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت‘‘تمام تر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ‘‘ نہ بنی تھیں۔ اسی لئے حضورؐ نے مغنیات کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے) |
1 | یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔ |
Surah 21 : Ayat 2
مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا ٱسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ
ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے1 اُس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں2
2 | وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہ، اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سنتے ہیں |
1 | یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سنائی جاتی ہے |
Surah 21 : Ayat 3
لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْۗ وَأَسَرُّواْ ٱلنَّجْوَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ هَلْ هَـٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۖ أَفَتَأْتُونَ ٱلسِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ
دِل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ 1"یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟"
1 | پھنسے جاتے ہو‘‘ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں ۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپ میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھےکہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے ، کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ،بیوی بچے رکھتا ہے ۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اوراس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اس اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے ۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’ سحر ‘‘ کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خور کے باپ) نے سرداران قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمدؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں ۔ یہ حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے ۔ لوگوں نے کہا ابو الولید ، تم پر پورا اطمینان ہے ، ضرور جا کر اس سے بات کرو ۔ وہ حضورؐ کے پاس پہنچا اورت کہنے لگا، ’’ بھتیجے ، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا ۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنا یا ۔ بھتیجے ، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں ۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں ۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کراۓ دیتے ہیں ۔‘‘ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم خاموش سنتے رہے ۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا ’’ ابولولید ، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں ، یا اور کچھ کہنا ہے ‘‘۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپا سورہ حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا ، ’’ابو الولید ، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ‘‘ عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ’’ خدا کی قسم ، ابولولید کا چہرا بدلا ہوا ہے ۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔‘‘ اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا، ’’کہو ابولولید ، کیا کر آئے ہو‘‘؟ اس نے کہا ’’ خدا کی قسم ، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے ، نہ سحر ہے اور نہ کہانت ۔ اے معشر قریش ، میری بت مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا، دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہو گی۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت ‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’ واللہ، ابولولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔‘‘ اس نے کہا ’’ یہ میری راۓ ہے ، اب تم جانو اور تمہارا کام‘‘۔ (ابن ہشام، جلد اول ، ص 313 ۔ 314)۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضورؐ سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوۓ اس آیت پر پہنچے کہ : فَاِنْ اَگْرَجُوْ ا فَقُلْاَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ، عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہات رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا ۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے ۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ ’’ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے ۔ ‘‘ اَرَشی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’ آج لطف آۓ گا ‘‘ ۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوۓ اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ۔ اس نے پوچھا ’’ کون‘‘؟ آپ نے جواب دیا ’’محمدؐ‘‘ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ نے اس سے کہا ’’ اس شخص کا حق ادا کر دو۔‘‘ اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا، حَکَم بن ہشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمدؐ کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمدؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے ۔ (ابن ہشام، جلد 2 ، ص 29 ۔30 ) ۔ یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر ، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا |
Surah 63 : Ayat 10
وَأَنفِقُواْ مِن مَّا رَزَقْنَـٰكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَآ أَخَّرْتَنِىٓ إِلَىٰٓ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور اُس وقت وہ کہے کہ "اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا"