Ayats Found (5)
Surah 5 : Ayat 114
قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ ٱللَّهُمَّ رَبَّنَآ أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ ٱلسَّمَآءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَءَاخِرِنَا وَءَايَةً مِّنكَۖ وَٱرْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی "خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"
Surah 22 : Ayat 58
وَٱلَّذِينَ هَاجَرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوٓاْ أَوْ مَاتُواْ لَيَرْزُقَنَّهُمُ ٱللَّهُ رِزْقًا حَسَنًاۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے
Surah 23 : Ayat 72
أَمْ تَسْــَٔلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌۖ وَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے1
1 | یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کا ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض اپ کے پیش نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی ، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیں اور پتھر کھا رہے ہیں ،بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گۓ ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے ، حتّیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے ؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا، نہ کہ وہ بات لے کر اٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے ، بلکہ سرے سے اس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکین عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت 90۔ یونس 72۔ ہود 29۔ 51۔ یوسف 104۔ افرقان57۔ الشعراء ، 109۔ 127۔145۔ 164۔ 180۔ سباء 47۔ یٰسین 21۔ ص، 86 الشوریٰ 23 ، النجم 40 مع حواشی |
Surah 34 : Ayat 39
قُلْ إِنَّ رَبِّى يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ وَيَقْدِرُ لَهُۥۚ وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن شَىْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُۖۥ وَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
اے نبیؐ، ان سے کہو، 1"میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے2
2 | رازق، صانع، موجِد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالٰی ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالٰی نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالٰی ہے۔ |
1 | اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کی رضا سے۔ مشیتِ الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے۔مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے |
Surah 62 : Ayat 11
وَإِذَا رَأَوْاْ تِجَـٰرَةً أَوْ لَهْوًا ٱنفَضُّوٓاْ إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَآئِمًاۚ قُلْ مَا عِندَ ٱللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ ٱللَّهْوِ وَمِنَ ٱلتِّجَـٰرَةِۚ وَٱللَّهُ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
اور جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا1 ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے2 اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے3
3 | یعنی اس دنیا میں مجازاً جو بھی رزق رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں ان سب سے بہتر رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس طرح کے فقرے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آۓ ہیں۔ کہیں اللہ تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ، کہیں خیر الغافرین، کہیں خیر الحاکمین، کہیں خیر الراحمین، کہیں خیرالناصرین۔ ان سب مقامات پر مخلوق کی طرف رزق، تخلیق، مغفرت، رحم اور نصرت کی نسبت مجازی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف حقیقی۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بھی دنیا میں تم کو تنخواہ، اجرت یا روٹی دیتے نظر آتے ہیں، یا جو لوگ بھی اپنی صنعت و کاریگری سے کچھ بناتے نظر آتے ہیں، یا جو لوگ بھی دوسروں کے قصور معاف کرتے اور دوسروں پر رحم کھاتے اور دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں، اللہ ان سب سے بہتر رازق، خالق، رحیم، غفور اور مدد گار ہے |
2 | یہ فقرہ کود بتا رہا ہے کہ صحابہ سے جو غلطی ہوئی تھی اس کی نوعیت کیا تھی۔اگر معاذ اللہ اس کی وجہ ایمان کی کمی اور آخرت پر دنیا کی دانستہ ترجیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور زجر و توبیخ کا انداز کچھ اور ہوتا۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی خرابی وہاں نہ تھی، بلکہ جو کچھ ہوا تھا تربیت کی کمی کے باعث ہوا تھا، اس لیے پہلے معلمانہ انداز میں جمعہ کے آداب بتاۓ گۓ ، پھر اس غلطی پر گرفت کر رکے مربیانہ انداز میں سمجھایا گیا کہ جمعہ کا خطبہ سننے اور اس کی نماز ادا کرنے پر جو کچھ تمہیں خدا کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کی تجارت اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے |
1 | یہ ہے وہ واقعہ جس کی وجہ سے اوپر کی آیات میں جمعہ کے احکام ارشاد فرماۓ گۓ ہیں۔اس کا قصہ جو کتب حدیث میں حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو مالک، اور حضرات حسن نصری، ابن زید، قتادہ، اور مقاتل بن حیان سے منقول ہوا ہے ، یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اس نے ڈھول تاشے بجانے شروع کیے تاکہ بستی کے لوگوں کو اس کی آمد کی اطلاع ہو جاۓ۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ و سلم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ ڈھول تاشوں کی آوازیں سن کر لوگ بے چین ہو گۓ اور 12 آدمیوں کے سوا باقی سب بقیع کی طرف دوڑ گۓ جہاں قافلہ اترا ہوا تھا۔ اس قصے کی روایات میں سب سے زیادہ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جسے امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، ابو عوانہ، عبد بن حمید، ابویعلیٰ وغیر ہُم نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے۔ اس میں اضطراب صرف یہ ہے کہ کسی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ نماز کی حالت میں پیش آیا تھا، اور کسی میں یہ ہے کہ یہ اس وقت پیش آیا جب حضور خطبہ دے رہے تھے۔ لیکن حضرت جابر اور دوسرے صحابہ و تابعین کی تمام روایات کو جمع کرنے سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دوران خطبہ کا واقعہ ہے اور حضرت جابرؓ نے جہاں یہ کہا ہے کہ یہ نماز جمعہ کے دوران میں پیش آیا، وہاں در اصل انہوں نے خطبے اور نماز کے مجموعہ پر نماز جمعہ کا اطلاق کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں بین کیا گیا ہے کہ اس وقت 12 مردوں کے ساتھ ایک عورت تھے (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم)۔ دارقطنی کی ایک روایت میں 40 افراد اور عبد بن حمید کی روایت میں 7 نفر بیان کیے گۓ ہیں۔ اور فرّاء نے 8 نفر لکھے ہیں۔ لیکن یہ سب ضعیف روایات ہیں۔ اور قتادہ کی یہ روایت بھی ضعیف ہے کہ اس طرح کا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا تھا (ابن جریر)۔ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جس میں باقی رہ جانے والوں کی تعداد 12 بتائی گئی ہے۔ اور قتادہ کی ایک روایت کے سوا باقی تمام صحابہ و تابعین کی روایات اس پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا۔ باقی رہ جانے والوں کے متعلق مختلف روایت کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمارؓ بن یاسر، حضرت سالمؓ مولیٰ حصیفہ، اور حضرت جابرؓ بن عبداللہ شامل تھے۔ حافظ ابو یعلیٰ نے حضرت جابر بن عبداللہ کی جو روایت نقل کی ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ اس طرح نکل کر لے گۓ اور صرف بارہ اصحاب باقی رہ گۓ تو ان کو خطاب کر کے حجور نے فرمایا والذی نفسی بیدہٖ لتتا بعتم حتی لم یبق منکم احد لسال بکم الوادی ناراً، اگر تم سب چلے جاتے اور ایک بھی باقی نہ رہتا تو یہ وادی آگ سے بہ نکلتی ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابن جریر نے قتادہ سے نقل کیا ہے۔ شیعہ حضرات نے اس واقعہ کو بھی صحابہؓ پر طعن کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد کا خطبے اور نماز کو چھوڑ کر تجارت اور کھیل تماشے کی طرف دوڑ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے تھے۔ لیکن یہ ایک سخت بے جا اعتراض ہے جو صرف حقائق سے آنکھیں بند کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ در اصل یہ واقعہ ہجرت کے بعد قریبی زمانے ہی میں پیش آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو صحابہ کی اجتماعی تربیت ابتدائی مراحل میں تھی۔ اور دوسری طرف کفار مکہ نے اپنے اثر سے مدینہ طیبہ کے باشندوں کی سخت معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے مدینے میں اشیاۓ ضرورت کمیاب ہو گئی تھیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس وقت مدینے میں لوگ بھوکوں مر رہے تھے اور قیمتیں بہت چڑھی ہوئی تھیں (ابن جریر )۔ اس حالت میں جب ایک تجارتی قافلہ آیا تو لوگ اس اندیشے سے کہ کہیں ہمارے نماز سے فارغ ہوتے ہوتے سامان فروخت نہ ہو جاۓ ، گھبرا کر اس کی طرف دوڑ گۓ۔ یہ ایک ایسی کمزوری اور غلطی تھی جو اس وقت اچانک تربیت کی کمت اور حالات کی سختی کے باعث رو نما ہو گئی تھی۔ لیکن جو شخص بھی ان صحابہ کی وہ قربانیاں دیکھے گا جواس کے بعد انہوں نے اسلام کے لیے کیں، اور یہ دیکھے گا کہ عبادات اور معاملات میں ان کی زندگیاں کیسے زبردست تقویٰ کی شہادت دیتی ہیں، وہ ہر گز یہ الزام رکھنے کی جرأت نہ کر سکے گا کہ ان کے اندر دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا کوئی مرض پایا جاتا تھا، الّا یہ کہ اس کے اپنے دل میں صحابہ سے بغض کا مرض پایا جاتا ہو۔ تاہم یہ واقعہ جس طرح صحابہؓ کے معترضین کی تائید نہیں کرتا اسی طرح ان لوگوں کے خیالات کی تائید بھی نہیں کرتا جو صحابہ کی عقیدت میں غلو کر کے اس طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی، یا ہوئی بھی ہو تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ ان کی غلطی کا ذکر کرنا اور اسے غلطی کہنا ان کی توہین ہے ، اور اس سے ان کی عزت و وقعت دلوں میں باقی نہیں رہتی، اور اس کا ذکر ان آیات و احادیث کے خلاف ہے جن میں صحابہ کے مغفور اور مقبول بار گاہ الٰہی ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔ یہ ساری باتیں سراسر مبالغہ ہیں جن کے لیے قرآن و حدیث میں کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس غلطی کا ذکر کیا ہے جو صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد سے صادر ہوئی تھی۔ اس کتاب میں کیا ہے جسے قیامت تک ساری امت کو پڑھنا ہے۔ اور اسی کتاب میں کیا ہے جس میں ان کے مغفور اور مقبول بارگاہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔ پھر حدیث و تفسیر کی تمام کتابوں میں صحابہ سے لے کر بعد کے اکابر اہل سنت تک نے اس غلطی کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر انہی صحابہ کی وقعت دلوں سے نکالنے کے لیے کیا ہے جن کی وقعت وہ خود دلوں میں قائم فرمانا چاہتا ہے ؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہؓ اور تابعین اور محدثین وہ مفسرین نے اس قصے کی ساری تفصیلات اس شرعی مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر بیان کر دی ہیں جو یہ خالی حضرات بیان کیا کرتے ہیں؟ اور کیا فی الواقع سورہ جمعہ پڑھنے والے اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے دلوں سے صحابہ کی وقعت نکل گئی ہے ؟ اگر ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اور یقیناً نفی میں ہے ، تو وہ سب بے جا اور مبالغہ آمیز باتیں غلط ہیں جو احترام صحابہ کے نام سے بعض لوگ کیا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کوئی آسمانی مخلوق نہ تھے بلکہ اسی زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں میں سے تھے۔ وہ جو کچھ بھی بنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت سے بنے۔ یہ تربیت بتدریج سالہا سال تک ان کو دی گئی۔ اس کا جو طریقہ قرآن و حدیث میں ہم کو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی ان کے اندر کسی کمزوری کا ظہور ہوا، اللہ اور اس کے رسولؐ نے بر وقت اس کی طرف توجہ فرمائی، اور فوراً اس خاص پہلو میں تعلیم و تربیت کا ایک پروگرام شروع ہو گیا جس میں وہ کمزوری پائی گئی تھی۔ اسی نماز جمعہ کے معاملہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب قافلہ تجارت والا واقعہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ کا یہ رکوع نازل فرما کر اس پر تنبیہ کی اور جمعہ کے آداب بتاۓ۔پھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلسل اپنے خطبات مبارکہ میں فرضیت جمعہ کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین فرمائی، جس کا ذکر ہم حاشیہ 15 میں کر آۓ ہیں، اور تفصیل کے ساتھ ان کو آداب جمعہ کی تعلیم دی۔ چنانچہ احادیث میں یہ ساری ہدایات ہم کو بڑی واضح صورت میں ملتی ہیں۔ حضرت ابو سعیدؓ خدری کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ہر مسلمان کو جمعہ کے روز غسل کرنا چاہیے ، دانت صاف کرنے چاہییں، جو اچھے کپڑے اس کو میسر ہوں پہننے چاہییں، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگانی چاہیے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی)۔ حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا جو مسلمان جمعہ کے روز غسل کرے اور حتی الامکان زیادہ اپنے آپ کو پاک صاف کرے ، سر میں تیل لگاۓ یا جو خوشبو گھر میں موجود ہو وہ لگاۓ ، پھر مسجد جاۓ اور دو آدمیوں کو ہٹا کر ان کے بیچ میں نہ گھسے ، پھر جتنی کچھ اللہ توفیق دے اتنی نماز (نفل) پڑھے ، پھر جب امام بولے تو خاموش رہے ، اس کے قصور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک معاف ہو جاتے ہیں (بخاری، مسند احمد )۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایات حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت نُبَیْشَۃُ الْھَذلِیؓ نے بھی حضور سے نقل کی ہیں (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، طبرانی )۔ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا جب امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت جو شخص بات کرے و اس گدھے کے مانند ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں، اور جو شخص اس سے کہے کہ چپ رہ، اس کا بھی کوئی جمعہ نہیں ہوا (مسند احمد)۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اگر تم نے جمعہ کے روز خطبہ کے دوران میں بات کرنے والے شخص سے کہا ’’ چپ رہ‘‘ تو تم نے بھی لغو حرکت کی (بخاری، مسلم، نسائی ترمذی، ابو داؤد )۔ اسی سے ملتی جلتی روایات امام احمد، ابو داؤد اور طبرانی نے حضرت علیؓ اور حضرت ابو الدرداءؓ سے نقل کی ہیں۔ا س کے ساتھ آپؐ نے خطیبوں کو بھی ہدایت فرمائی کہ لمبے لمبے خطبے دے کر لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ آپ خود جمعہ کے روز مختصر خطبہ ارشاد فرماتے اور نماز بھی زیادہ لمبی نہ پڑھاتے تھے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضور طویل خطبہ نہیں دیتے تھے۔ وہ بس چند مختصر کلمات ہوتے تھے (ابو داؤد)۔ حضرت عبداللہ بن ابی ادفیٰ کہتے ہیں کہ آپؐ کا خطبہ نماز کی بہ نسبت کم ہوتا تھا اور نماز اس سے زیادہ طویل ہوتی تھی (نسائی)۔ حضرت عمارؓ بن یاسر کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے (مسند احمد، مسلم)۔ تقریباً یہی مضمون بزار نے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود سے نقل کیا ہے۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضورؐ نے کس طرح لوگوں کو جمعہ کے آداب سکھاۓ یہاں تک کہ اس نماز کی وہ شان قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی اجتماعی عبادت میں نہیں پائی جاتی |