Ayats Found (5)
Surah 8 : Ayat 42
إِذْ أَنتُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلدُّنْيَا وَهُم بِٱلْعُدْوَةِ ٱلْقُصْوَىٰ وَٱلرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَٱخْتَلَفْتُمْ فِى ٱلْمِيعَـٰدِۙ وَلَـٰكِن لِّيَقْضِىَ ٱللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولاً لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنۢ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَىَّ عَنۢ بَيِّنَةٍۗ وَإِنَّ ٱللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہُور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے1، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے2
2 | یعنی خدا اندھا، بہرا، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے ۔ اس کی خدا ئی میں اندھا دُھند کام نہیں ہو رہا ہے |
1 | یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں |
Surah 9 : Ayat 4
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْــًٔا وَلَمْ يُظَـٰهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوٓاْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ
بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہد ے کیے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے1
1 | یعنی یہ بات تقویٰ کے خلاف ہوگی کہ جنھوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی ہے ان سے تم عہد شکنی کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ صرف وہی لوگ ہیں جو ہرحال میں تقویٰ پر قائم رہیں |
Surah 20 : Ayat 58
فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِۦ فَٱجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُۥ نَحْنُ وَلَآ أَنتَ مَكَانًا سُوًى
اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویساہی جادو لاتے ہیں طے کر لے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے نہ ہم اِس قرارداد سے پھریں گے نہ تو پھریو کھُلے میدان میں سامنے آ جا"
Surah 20 : Ayat 59
قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ ٱلزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ ٱلنَّاسُ ضُحًى
موسیٰؑ نے کہا 1"جشن کا دن طے ہوا، ا ور دن چڑھے لوگ جمع ہوں"
1 | فرعون کا مدعا یہ تھا کہ ایک دفعہ جادو گروں سے لاٹھیوں اور رسیوں کا سانپ بنوا کر دکھا دوں تو موسیٰؑ کے معجزے کا جو اثر لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دور ہو جاۓ گا۔ یہ حضرت موسیٰ کی منہ مانگی مراد تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ الگ کوئی دن اور جگہ مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ جشن کا دن قریب ہے، جس میں تمام ملک کے لوگ دار السلطنت میں کھنچ کر آجاتے ہیں۔ وہیں میلے کے میدان میں مقابلہ ہو جاۓ تاکہ ساری قوم دیکھ لے۔ اور وقت بھی دن کی پوری روشنی کا ہونا چاہیے تاکہ شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔ |
Surah 26 : Ayat 38
فَجُمِعَ ٱلسَّحَرَةُ لِمِيقَـٰتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ
چنانچہ ایک روز مقرر وقت پر جادوگر اکٹھے کر لیے گئے1
1 | سور طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ اس مقابلے کے لیے قبطیوں کی قومی عید کا دن (یوم الزینۃ) مقرر کیا گیا تھا تاکہ ملک کے گوشے گوشے سے میلوں ٹھیلوں کی خاطر آنے والے سب لوگ یہ عظیم الشان ’’ دنگل‘‘ دیکھنے کے لی جمع ہو جائیں ، اور اس کے لیے وقت بھی دن چڑھے کا طے ہوا تھا تا کہ روز روشن میں سب کی آنکھوں کے سامنے فریقین کی طاقت کا مظاہرہ ہو اور روشنی کی کمی کے باعث کوئی شک و شبہہ پیدا ہونے کی گنجائش نہ رہے |