Ayats Found (5)
Surah 2 : Ayat 212
زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْۘ وَٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْ فَوْقَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ وَٱللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، اُن کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی اُن کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے رہا دنیا کا رزق، تو اللہ کو اختیار ہے، جسے چاہے بے حساب دے
Surah 24 : Ayat 38
لِيَجْزِيَهُمُ ٱللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُواْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
(اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اُن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے1
1 | یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے ، اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت ، اور اس سے دلچسپی، اور اس کا خوف ، اور اس کے انعام کی طلب ، اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔ وہ دنیا پرستی ہیں گم نہیں ہے۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جاۓ۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے ، ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے |
Surah 3 : Ayat 37
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّاۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا ٱلْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًاۖ قَالَ يَـٰمَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَـٰذَاۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِۖ إِنَّ ٱللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
آخرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا، اُسے بڑی اچھی لڑکی بنا کر اٹھایا اور زکریاؑ1 کوا س کا سرپرست بنا دیا زکریاؑ1 جب کبھی اس کے پاس محراب2 میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا پوچھتا مریمؑ! یہ تیرے پا س کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے
2 | لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطحِ زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں، جن میں عبادت گاہ کے مجاور، خدّام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں ، انہیں محراب کہا جاتاہے۔ اسی قسم کےکمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں |
1 | اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سِن رُشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عباد ت گاہ (ہیکل) میں داخل کر دی گئیں اور ذکرِ الہٰی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پُرانے عہد نامے میں آیا ہے |
Surah 3 : Ayat 27
تُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَتُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِۖ وَتُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّۖ وَتَرْزُقُ مَن تَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے اور بے جان میں سے جاندار کو اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے1
1 | جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتُوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کِس طرح پَھل پھول رہے ہیں ، دوسری طرف اہلِ ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور اُن مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مُبتلا تھے، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصّور نہیں کیا جا سکتا |
Surah 42 : Ayat 19
ٱللَّهُ لَطِيفُۢ بِعِبَادِهِۦ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُۖ وَهُوَ ٱلْقَوِىُّ ٱلْعَزِيزُ
اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے1 جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے2، وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے3
3 | یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے ، یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے ، یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے |
2 | مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جاۓ۔ اگر چہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے ، مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو کوئی اور چیز۔ کسی ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے |
1 | اصل میں لفظ لَطِیْفٌ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم ’’مہربان‘‘سے ادا نہیں ہوتا۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں ، بلکہ تمام بندے ہیں ، یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بندوں پرعام ہے |