Ayats Found (9)
Surah 13 : Ayat 26
ٱللَّهُ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ وَفَرِحُواْ بِٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا فِى ٱلْأَخِرَةِ إِلَّا مَتَـٰعٌ
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ نپا تلا رزق دیتا ہے 1یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ د نیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں
1 | اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفارمکہ بھی عقیدہ و عمل کے حس و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر قیمت کا حساب لگاتے تھے۔ اُن کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خو ب سامانِ عیش مِل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے ، خواہ ہو کیسا ہی گمراہ و بدکار ہو۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خوا ہ وہ کیسا ہی نیک ہو۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو، اللہ کس کے ساتھ ہے۔ ا س پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم ۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی ومعنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔ انسانوں کے درمیان فرقِ مراتب کی اصل بنیاد اور اُن کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط ، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے بُرے اوصاف کا۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم |
Surah 17 : Ayat 30
إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ إِنَّهُۥ كَانَ بِعِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرًا
تیر ا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے وہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے1
1 | یعنی اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کم و بیش کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا، لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل اندازنہ ہونا چاہیے۔فطری نامساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا، یا اس نا مساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر بے انصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں ہی یکساں غلط ہیں۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کےمقرر کیے ہوئے طریق ِ تقسیم رزق سے قریب تر ہو۔ اس فقرے میں قانون فطرت کے جس قاعدے کی طرف رہنمائی کی گئی تھی اس کی وجہ سے مدینے کے اصلاحی پروگرام میں یہ تخیل سرے سے کوئی راہ نہ پا سکا کہ رزق اور وسائل ِرزق میں تفاوت اور تفاضُل بجائے خود کوئی برائی ہے جسے مٹانا اور ایک بے طبقات سوسائٹی پیدا کرنا کسی درجے میں بھی مطلوب ہو۔ اس کے برعکس مدینہ طیبہ میں انسانی تمدن کو صالح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جو راہ عمل اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ فطرت اللہ نے انسانوں کے درمیان جو فرق رکھے ہیں ان کو اصل فطری حالت پر بر قرار رکھا جائے اور اوپر کی دی ہوئی ہدایات کےمطابق سوسائٹی کے اخلاق و اطوار اور قوانین عمل کی اس طرح اصلاح کر دی جائے کہ معاش کا فرق وتفاوت کسی ظلم وبے انصافی کا موجب بننے کے بجائے اُن بے شمار اخلاقی، روحانی اور تمدنی فوائد و برکات کا ذریعہ بن جائے جن کی خاطر ہی دراصل خالقِ کائنات نے اپنے بندوں کے درمیان یہ فرق و تفاوت رکھا ہے۔ |
Surah 28 : Ayat 82
وَأَصْبَحَ ٱلَّذِينَ تَمَنَّوْاْ مَكَانَهُۥ بِٱلْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ ٱللَّهَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ وَيَقْدِرُۖ لَوْلَآ أَن مَّنَّ ٱللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَاۖ وَيْكَأَنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے "افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تلا دیتا ہے1 اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے2"
2 | یعنی ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ دُنیوی خوشحالی اوردولت مندی ہی فلاح ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ قارون بڑی فلاح پارہا ہے۔ مگر اب پتہ چلا کہ حقیقی فلاح کسی اورہی چیز کانام ہے اوروہ کافروں کونصیب ہوتی۔ قارون کےقصے کایہ سبق آموز پہلوصرف ہی میں بیان ہوا ہے۔ بائیبل اورتلمود دونوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ البتہ ان دونوں کتابوں میں جوتفصیلات بیان ہوئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہےکہ بنی اسرئیل جب مصر سے نکلے تویہ شخص بھی اپنی پارٹی سمیت ان کےساتھ نکلا، اورپھر اس نےحضرت موسٰی وہارون کےخلاف ایک سازس کی جس میں ڈھائی سوآدمی شامل تھے۔ آخر کاراللہ کاغضب اس پرنازل ہُوا اوریہ اپنےگھر باراور مال اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا۔ |
1 | یعنی اللہ کی طرف سےرزق کی کشادگی وتنگی جوکچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پرہوتی ہے اوراس مشیت میں اس کی کچھ دوسری مصلحتیں کافرماہوتی ہیں۔ کسی کوزیادہ رزق دینے کےمعنی لازمََا یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہےاوراسے انعام دےرہا ہے۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کانہایت مغضوب ہوتا ہےمگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلاجاتا ہے، یہاں تک کہ آخر کاریہی دولت اس کے اوپر اللہ کاسخت عزاب لےآتی ہے۔ اس کےبرعکس اگر کسی کارزق تنگ ہےتواس کےمعنی لازمََا یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالٰی اس سےناراض ہےاوراسےسزا دےرہا ہے۔اکثر نیک لوگوں پرتنگی اس کےباوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کےمحبوب ہوتے ہیں، بلکہ بارہا یہی تنگی ان کےلیے خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اس حقیقت کونہ سمجھنے ہی کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اُن لوگوں کہ خوشحالی کورشک کی نگاہ سے دیکھتا ہےجودراصل خداکے غضب کےمستحق ہوتے ہیں۔ |
Surah 29 : Ayat 62
ٱللَّهُ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ وَيَقْدِرُ لَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے
Surah 30 : Ayat 37
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے (جس کا چاہتا ہے) یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں1
1 | یعنی اہلِ ایمان اس سے سبق حاصل کرسکتےہیں کہ کفروشرک کاانسان کے اخلاق پرکیااثر پڑتا ہے،اوراس کےبرعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیاہیں۔جوشخص سچے دل سےخداپرایمان رکھتاہواوراسی کورزق کے خزانوں کامالک سمجھتا ہو،وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہوسکتا جس میں خداکوبھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔اُسے کشادہ رزق ملے توپھولےگانہیں،شکرکرے گا،خلقِ خداکےساتھ تواضع اورفیاضی سے پیش آئے گا،اورخداکامال خدا کی راہ میں صرف کرنے سےہرگزدریغ نہ کرے گا۔تنگی کے ساتھ رزق ملے،یافاقےہی پڑجائیں،تب بھی صبرسےکام لے گا،دیانت وامانت اورخودداری کوہاتھ سےنہ دےگا،اورآخرت وقت تک خداسےفضل وکرم کی آس لگائےرہےگا۔یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کونصیب ہوسکتی ہےنہ مشرک کو۔ |
Surah 34 : Ayat 36
قُلْ إِنَّ رَبِّى يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اے نبیؐ، اِن سے کہو میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا عطا کرتا ہے، مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے1
1 | یعنی دنیا میں رزق کی تقسیم کا انتظام س حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس کو یہ لوگ نہیں سمجھتے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ جسے اللہ کشادہ رزق دے رہا ہے وہ اس کا محبوب ہے، اور جسے تنگی کے ساتھ دے راہ ہے وہ اس کے غضب میں مبتلا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ بسا اوقات بڑے نا پاک اور گھناؤنے کردار کے لوگ نہایت خوشحال ہوتے ہیں، اور بہت سے نیک اور شریف انسان، جن کی کردار کی خوبی کا ہر شخص معترف ہوتا ہے، تنگدستی میں مبتلا پائے جاتے ہی۔ اب آخر کون صاحب عقل آدمی یہ کہ سکتا ہے کہ اللہ کو یہ پاکیزہ اخلاق کے لوگ ناپسند ہیں اور وہ شریر و خبیث لوگ ہی اسے بھلے لگتے ہیں |
Surah 34 : Ayat 39
قُلْ إِنَّ رَبِّى يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ وَيَقْدِرُ لَهُۥۚ وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن شَىْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُۖۥ وَهُوَ خَيْرُ ٱلرَّٲزِقِينَ
اے نبیؐ، ان سے کہو، 1"میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے2
2 | رازق، صانع، موجِد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ایسی ہیں جو اصل میں تو اللہ تعالٰی ہی کی صفات ہیں مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، یا اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالٰی نے اپنے لیے خیر الرازقین کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے متعلق تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں ان سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ تعالٰی ہے۔ |
1 | اس مضمون کو بتکرار بیان کرنے سے مقصود اس بات پر زور دینا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس کی رضا سے۔ مشیتِ الہٰی کے تحت اچھے اور برے ہر طرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پا رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اس کا مغضوب ہے۔مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔ لہٰذا وہ شخص گمراہ ہے جو مادی فوائد و منافع کو خیر و شر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو اور اس کے ساتھ دنیا کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت باز پرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہو رہا ہے |
Surah 39 : Ayat 52
أَوَلَمْ يَعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے1؟ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
1 | یعنی رزق کی تنگی و کشادگی اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون پر مبنی ہے جس کے مصالح کچھ اور ہیں۔ اس تقسیم رزق کا مدار آدمی کی اہلیت و قابلیت، یا اس کے محبوب و مغضوب ہونے پر ہرگز نہیں ہے۔ (اس مضمون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم،التوبہ‘حاشیہ ۵۴۔۷۵۔۸۹‘یونس‘حاشیہ ۲۳‘ہود‘حاشیہ ۳۔۳۳‘الرعد‘حاشیہ ۴۲‘جلد سوم‘الکہف‘حاشیہ ۳۷‘مریم‘حاشیہ ۴۵‘طٰہ،حواشی ۱۱۳۔۱۱۴،الانبیاء‘حاشیہ ۹۹‘المومنون‘دیباچہٰ حاشیہ ۱۔۴۹۔۵۰‘الشعرا‘حاشیہ ۸۱۔۸۴‘القصص‘حواشی ۹۷۔۹۸۔۱۰۱‘جلد چہارم‘سبا‘حواشی |
Surah 42 : Ayat 12
لَهُۥ مَقَالِيدُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ إِنَّهُۥ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں، جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے، اُسے ہر چیز کا علم ہے1
1 | یہ دلائل ہیں اس امر کے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کیوں ولی برحق ہے ، اور کیوں اسی پر توکل کرنا صحیح ہے اور کیوں اسی کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، النعمل حواشی ۷۳ تا ۸۳ الروم حواشی ۲۵ تا ۳۱ |