Ayats Found (13)
Surah 6 : Ayat 14
قُلْ أَغَيْرَ ٱللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُۗ قُلْ إِنِّىٓ أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سر پرست بنا لوں؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے1؟ کہو، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سر تسلیم خم کروں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو
1 | اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ مشرکوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ سب اپنے ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے اُلٹا ان سے رزق پانے کے محتاج ہیں۔ کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ نہیں جما سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ کسی صاحبِ قبر کی شانِ معبُودیّت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پرستار اس کا شاندار مقبرہ تعمیر نہ کریں۔ کسی دیوتا کا درباِ رِ خدا وندی سج نہیں سکتا جب تک اس کے پُجاری اس کا مجسّمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں اور اس کو تزئین و آرائش کے سامانوں سے آراستہ نہ کریں۔ سارے بناؤٹی خدا بیچا رے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں ۔ صرف ایک خداوندِ عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں |
Surah 6 : Ayat 151
۞ قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْۖ أَلَّا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۖ وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُم مِّنْ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْۖ وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلْفَوَٲحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَۖ وَلَا تَقْتُلُواْ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں1: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو2، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو3، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ 4خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ5 یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
5 | یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ”حق کے ساتھ“ کا کیا مفہُوم ہے، تو اس کی تین صُورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دوصُورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صُورتیں یہ ہیں: (۱) انسان کسی دُوسرے انسان کے قتل ِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو۔ (۲) دینِ حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ (۳) دار الاسلام کے حُدُود میں بد امنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صُورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں: (۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ (۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ اِن پانچ صُورتوں کے سوا کسی صُورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمّی یا عام کافر |
4 | اصل میں لفظ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق اُن تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی بُرائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا ، عمل ِ قومِ لوط ، برہنگی، جھُوٹی تُہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو مِن جملۂ فواحش کہا گیا ہے ۔ اِسی طرح دُوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشادِ الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھُپ کر |
3 | نیک سلوک میں ادب ، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت ، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے |
2 | یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھیراؤ ، نہ اس کی صفات میں ، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔ ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہرِ اُلُوہیّت میں کسی کو حصّہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دُوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنسِ آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذّات ہیں۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی اُن کو یا اُن میں سے کسی صفت کو کسی دُوسرے کے لیے قرار دینا ۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں اُن کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا، دُعائیں سُننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا ۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حُدُود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خدا وندی کے مخصُوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کےجو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے ۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی وآستانہ بوسی، شکرِ نعمت یا اعترافِ برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دُوسری تمام صُورتیں اللہ کے مخصُوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبُوب ہونا کہ اس کی محبت پر دُوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دُوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھیرے گا خوا ہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے |
1 | یعنی تمہارے ربّ کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰) |
Surah 10 : Ayat 31
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَـٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
اِن سے پُوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟
Surah 17 : Ayat 31
وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْــًٔا كَبِيرًا
اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی در حقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے1
1 | یہ آیت اُن معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جن پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبطِ ولادت کی تحریک اُٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتلِ اطفال اور اسقاطِ حمل کا محرک ہوا کرتا تھا، اور آج وہ ایک تیسری تدبیر، یعنی منع حمل کی طرف دنیاکو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر اُن تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کےمطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کی تنگی کے اندیشے سے افزائش ِ نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دے گا۔ تاریخ کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے، اُتنے ہی، بلکہ بارہا اس سے بہت زیادہ معاشی ذائع وسیع ہوتے چلے گئے ہیں۔ لہٰذا خدا کے تخلیقی انتظامات میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لے کر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہونے پایا۔ |
Surah 20 : Ayat 132
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِٱلصَّلَوٲةِ وَٱصْطَبِرْ عَلَيْهَاۖ لَا نَسْــَٔلُكَ رِزْقًاۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَۗ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو1 اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے2
2 | یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہیں میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔ |
1 | یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں ان حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز ان کے زاویۂ نظر کو بدل دے گی۔ ان کے معیار قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے |
Surah 26 : Ayat 79
وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ
جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے
Surah 27 : Ayat 64
أَمَّن يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِۗ أَءِلَـٰهٌ مَّعَ ٱللَّهِۚ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَـٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
اور کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟1 اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟2 کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (اِن کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو3
3 | یعنی یا تو اس بات پردلیل لاؤ کہ ان کاموں میں واقعی کوئی اوربھی شریک ہے، یا نہیں تو پھر کسی معقول دلیل سے یہی بات سمجھا دوکہ یہ سارے کام توہوں صرف ایک اللہ کے مگر بندگی وعبادت کا حق پہنچے اُس کے سوا کسی اورکو، یا اس کے ساتھ کسی اور کوبھی۰ |
2 | رزق دینے کامعاملہ بھی اُتنا سادہ نہیں ہے جتنا سرسری طور پران مختصر سے الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص محسوس کرتا ہے۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں جن میں سے ہرایک کے اربوں افراد موجود ہیں، اور ہرایک کی غزائی ضروریات الگ ہیں۔ خالق نے ان میں سےہر نوع کی غزا کا سامان اس کثرت سے اورہرایک کی دست رسی کےاس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غزا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے۔ پھر اس انتظام میں زمین اورآسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کرکام کرتی ہیں جن کاشمار مشکل ہے۔ گرمی،روشنی، ہوا، پانی اورزمین کے مختلف الاقسام مادوں کے درمیان اگر ٹھیک تناسب کے ساتھ تعاون نہ ہو تو غزا کا ایک زرہ بھی وجود میں نہیں آسکتا ۔ کون شخص تصور کرسکتا ہے کہ یہ حکیمانہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اورسوچے سمجھے منصوبے کے بغیر یونہی اتفاقاََ ہوسکتا تھا؟ اورکون اپنے ہوش وحواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جن یا فرشتے یاکسی بزرگ کی روح کا کوئی دخل ہے؟ |
1 | یہ سادہ سی بات جس کوایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے اپنے ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اُترتاجاتا ہے اتنے ہی وجودِالٰہ اوروحدتِ الٰہ کے شواہدا سےملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کودیکھیے۔ انسان کاعلم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اورکہاں سے آتی ہے۔اس وقت تک مسلم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بےجان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود پیدانہیں ہوسکتی۔ حیات کی پیدائش کےلیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کاٹھیک تناسب کے ساتھ اتفاقاََ جمع ہوکر زندگی کاآپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت واتفاق(Law of chance) کع اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سےزیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معمولی (Labo ratories) میں بےجان مادّے سے جاندار مادّ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیراستعمال کرنے کے باوجود وہ سب قطعی ناکام ہوچکی ہیں۔ زیادہ سےزیادہ جو چیز پیدا کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادّہ ہے جسے اصطلاحی میں(D.N.A) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مادہ ہے جوزندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جو ہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں ہے۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امروارادہ اورمنصوبے کانتیجہ ہے۔ اس کے ّآگے دیکھیے ۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بےشمار متنوع صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت روئے زمین پرحیوانات کی تقریبََا ۱۰ لاکھ اورنباتات کی تقریبادولاکھ انواع کا پتہ چلا ہے۔ یہ لکھوکھا انواع اپنی ساخت اورنوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اورقطعی امتیاز رکھتی ہیں ، اورقدیم ترین معلوم زمانے سےاپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیق منصوبے(Design) کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اورمعقول توجیہ کردنیا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دونوں کےدرمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جوایک نوع کی ساخت اورخصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہواور ابھی دوسری نوع کی ساخت اورخصوصیات تک پہنچنے کےلیے ہاتھ پاؤں ماررہی ہو۔ متحجرات(Fossils) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثیٰ مشکل کہیں نہیں ملا ہے۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے، اپنی پوری صورتِ نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے ، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے بہم پہنچ جانےکا وقتاََ فوقتاََ سنادیا جاتا ہے، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم، ایک خالق الباری المصورہی نے زندگی کویہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں یہ توابتدائے خلق کا معاملہ۔ اعادہ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہرنوع حیوانی اورنباتی کی ساخت وترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل (Mechanism) رکھ دیا ہے جواس کے بے شمار افراد مین سے ب حدوحساب نسل ٹھیک اسی کی صورت نوعیہ اورمزاج وخصوصیات کے ساتھ نکالتا چلاجاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہاکروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہء تناسُل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کرپھینک دے۔ جدید علم تناسُل (Genetics) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں۔ ہرپودے یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہواوراس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افرادسے اپنی صورت نوعیہ میںممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اورتناسُل کا سامان ہرپودے کے ایک خلیے (Cell) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے مشکل انتہائی طاقت ور خورد بین سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا انجینیر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشونما کو حتماََ اُسی راستے پرڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے کیہوں ہی پیدا کیا ہے، کسی آب وہوا اورکسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہء گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہء جو پیدا ہوجاتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اورانسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کہ تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہرطرف اعادہ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہرنوع کے افراد سے پہیم اُسی نو کے بے شمار افراد وجود میں لاتا جارہا ہے۔ اگر کوئی شخص تو الدُد تناسُل کے اُس خوردبینی تخم کودیکھے جوتمام نوعی امتیازات اورموروثی خصوصیات کو اپنے زراسے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے، اورپھر اس انتہائی نازک اورپیچیدہ عضوی نظام اوربے انتہا لطیف و پر پیچ عملیات(Progresses) کودیکھیے جن کی مدد سے ہرنوع کے ہر فرد کاتخم تناسُل اُسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے، تو وہ ایک لمحہ کےلیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اورپیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتداکےلیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے، بلکہ ہرآن اپنے درست طریقہ پرچلتے رہنے کےلیے بھی ایک ناظم ع مدبر اورایک حی وقیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی ورہنمائی سے غافال نہ ہو۔ یہ حقائق ایک دہریے کے انکار خدا کی بھی اسی طرح جڑکاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی ۔ کون احمق یہ گمان کر سکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی زرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے۔ اورکون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہوکریہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ خلق واعادہ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاََ شروع ہوااور آپ سے آپ چلے جارہاہے |
Surah 29 : Ayat 60
وَكَأَيِّن مِّن دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا ٱللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ اُن کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے1
1 | یعنی ہجرت کرنے میں تمہیں فکرِ جان کی طرح فکرروزگار سے بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ آخر یہ بے شمار چرند و پرند اور آبی حیوانات جو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا اور خشکی اور پانی میں ہھر رہے ہیں، ان میں سے کون اپنا رزق اُٹھائے پھرتا ہے؟ اللہ ہی تو ان سب کو پال رہا ہے۔ جہاں جاتے ہیں اللہ کے فضل سے ان کو کسی نہ کسی طرح رزق مل ہی جاتا ہے۔ لٰہزا تم یہ سوچ سوچ کر ہمت نہ ہارو کہ اگر ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تو کھائیں گے کہاں سے۔ اللہ جہاں سے اپنی بے شمار مخلوق کو رزق دے رہا ہے، تمہیں بھی دے گا۔ ٹھیک یہی بات ہے جو سیدنا مسیحؑ نے السلام نے اپنے حواریوں سے فرمائی تھی۔ انہوں نے فرمایا: ’’ کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو نا چیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے، یا کیا پیئیں گے۔ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں، نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے، کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں سے ایسا کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاٹتے ہیں پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کی مانند لمبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اسے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا۔ اس لیے فکر مند نہ ہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پیئں گےیا کیا پہنیں گے، ان سب چیزوں کی تلاش میں تو غیر قومیں رہتی ہیں۔ تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو۔ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔ کل کے لیے فکر نہ کرو۔ کل کا دن اپنی فکر آپ کر لے گا آج کے لیے آج ہی کا سکھ کافی ہے۔ (متی باب ۶ آیات ۳۴:۶۴) قرآن اور انجیل کے ان ارشادات کا پس منظر ایک ہی ہے۔ دعوتِ حق کی راہ میں ایک مرحلہ ایسا آ جاتا ہے جس میں ایک حق پرست آدمی کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں رہتا کہ عالم اسباب کے تمام سہاروں سے قطع نظر کر کے محض اللہ کے بھروسے پر جان جوکھوں کی بازی لگادے، ان حالات میں وہ لوگ کچھ نہیں کرسکتے جو حساب لگا لگا کر مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں اور قدم اٹھانے سے پہلے جان کے تحفظ اور رزق کے حصول کی ضمانتیں تلاش کرتے ہیں۔ درحقیقت اس طرح کے حالات بدلتے ہی اُن لوگوں کی طاقت سے ہیں جو سر ہتھیلی پرلے کر اُٹھ کھڑے ہوں اور ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے بے دھڑک تیار ہو جائیں۔ انہی کی قربانیاں آخر کار وہ وقت لاتی ہیں جب اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں سارے کلمے پست ہو کر رہ جاتے ہیں۔ |
Surah 34 : Ayat 24
۞ قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ قُلِ ٱللَّهُۖ وَإِنَّآ أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
(اے نبیؐ) اِن سے پوچھو، 1"کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟" کہو "اللہ اب لامحالہ ہم میں اور تم میں سے کوئی ایک ہی ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں پڑا ہوا ہے2"
2 | اس فقرے میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے۔ اوپر کے سوال و جواب کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ جو اللہ ہی کی بندگی و پرستش کرتا ہے وہ ہدایت پر ہو اور جو اس کے سوا دوسروں کی بندگی بجا لاتا ہے وہ گمراہی میں مبتلا ہو۔ اس بنا پر بظاہر تو اس کے بعد کہنا یہ چاہیے تھا کہ ہم ہدایت پر ہیں اور تم گمراہ ہو۔ لیکن اس طرح دو ٹوک بات کہ دینا حق گوئی کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی درست ہوتا حکمت تبلیغ کے لحاظ سے درست نہ ہوتا۔ کیوں کہ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے آپ صاف صاف گمراہ کہہ دیں اور خود اپنے برسر ہدایت ہونے کا دعویٰ کریں تو وہ ضد میں مبتلا ہو جائے گا اور سچائی کے لیے اس کے دل کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اللہ کے رسولؐ چونکہ مجرد حق گوئی کے لیے نہیں بھیجے جاتے بلکہ ان کے سپرد یہ کام بھی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حکیمانہ طریقے سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں، اس لیے اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے نبی، اس سوال و جواب کے بعد اب تم ان لوگوں سے صاف کہہ دو کہ تم سب گمراہ ہو اور ہدایت پر صرف ہم ہیں۔ اس کے بجائے تلقین یہ فرمائی گئی کہ انہیں اب یوں سمجھاؤ۔ ان سے کہو ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فرق تو کھل گیا کہ ہم اسی کو معبود مانتے جو رزق دینے والا ہے، اور تم ان کو معبود بنا رہے ہو جو رزق دینے والے نہیں ہیں۔ اب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اور تم دونوں بیک وقت راہ راست پر ہوں۔ اس صریح فرق کے ساتھ تو ہم میں سے ایک ہی راہ راست پر ہو سکتا ہے، اور دوسرا لامحالہ گمراہ ٹھیرتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوچنا تمہارا اپنا کام ہے کہ دلیل کے برسر ہدایت ہونے کا فیصلہ کر رہی ہے اور کون اس کی رو سے گمراہ ہے۔ |
1 | سوال اور جواب کے درمیان ایک لطیف خلاہے۔مخاطب مشرکین تھے جو صرف یہی نہیں کہ اللہ کی ہستی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ بھی جانتے اور مانتے تھے کہ رزق کی کنجیاں اُسی کے ہاتھ میں ہیں۔مگر اس کے باوجود وہ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے۔اب جواُن کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ بتاؤ کون تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتاہے،تو وہ مشکل میں پڑ گئے۔اللہ کےسوا کسی اور کا نام لیتے ہیں تو خود اپنے اور اپنی قوم کے عقیدے کے خلاف بات کہتےہیں۔ہٹ دھرمی کی بنا پرایسی بات کہہ بھی دیں تو ڈرتے ہیں کہ خود اپنی قوم کے لوگ ہی اس کی تردید کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔اور اگر تسلیم کرلیتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے تو فوراً دوسرا سوالی یہ سامنے آجاتاہے کہ پھر یہ دوسرے کس مرض کی دوا ہیں جنہیں تم نے خدا بنارکھا ہے؟ رزق تو دے اللہ اور پوجے جائیں یہ،آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔اس دوگونہ مشکل میں پڑکروہ دم بخود رہ جاتے ہیں۔نہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی دوسرامعبود رازق ہے۔پوچھنے والا جب دیکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ نہیں بولتے،تو وہ خود اپنے سوال کا جواب دیتاہے کہ ’’اللہ‘‘ |
Surah 35 : Ayat 3
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱذْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْۚ هَلْ مِنْ خَـٰلِقٍ غَيْرُ ٱللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِۚ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو1 کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟2
2 | پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کررہا ہو؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔ |
1 | یعنی احسان فراموش نہ بنو۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے، یا کوی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے، وہ بہت بڑا احسان فراموش ہے |