Ayats Found (5)
Surah 1 : Ayat 3
ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
رحمان اور رحیم ہے1
1 | انسان کا خاصّہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتاہے، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کروہ محسوس کرتا ہے کہ اُس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا، تو پھر وہ اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائےجو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے۔ اللہ کی تعریف میں رحمن کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نقطہ پوشیدہ ہے ۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ لیکن خدا کی رحمت اور مہر بانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے ، اس قدر وسیع ہے، ایسی بے حد وحساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغہ کالفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا۔اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیاگیا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں ‘‘سخی ’’کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر ‘‘داتا ’’ کا اضافہ کرتے ہیں ۔رنگ کی تعریف میں جب ‘‘گورے ’’ کو کافی نہیں پاتے تو اس پر ‘‘چٹےّ ’’ کا لفظ اور بڑھا دیتےہیں ۔درازیِ قد کے ذکر میں جب ‘‘لمبا ’’ کہنے سے تسلّی نہیں ہوتی تو اس کے بعد ‘‘تڑنگا ’’ بھی کہتے ہیں |
Surah 6 : Ayat 73
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُۚ قَوْلُهُ ٱلْحَقُّۚ وَلَهُ ٱلْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِۚ عَـٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے1 اور جس د ن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائیگا 2اس روز پادشاہی اُسی کی ہوگی3، وہ غیب اور شہادت4 ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے
4 | غیب = وہ سب کچھ جو مخلوقات سے پوشیدہ ہے۔ شھادت = وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر و معلوم ہے |
3 | یہ مطلب نہیں ہے کہ آج بادشاہی اس کی نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس روز جب پردہ اُٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آجائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب جو با اختیار نظر آتے تھے ، یا سمجھے جاتے تھے ، بالکل بے اختیار ہیں اور بادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے |
2 | صُور پھوُنکنے کی صحیح کیفیت کیا ہوگی، اس کی تفصیل ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صُور پھُونکا جائے گا اور سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ پھرنا معلوم کتنی مدّت بعد، جسے اللہ ہی جانتا ہے، دُوسرا صُور پھُونکا جائے گا اور تمام اوّلین و آخرین ازسرِ نو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدانِ حشر میں پائیں گے۔ پہلے صُور پر سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہو گا اور دُوسرے صُور پر ایک دُوسرا نظام نئی صُورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہو جائے گا |
1 | قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے یا حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ ارشاد بہت وسیع معانی پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایشورجی کی لِیلا نہیں ہے۔ یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے وہ اس سے کھیلتا رہے اور پھر یونہی اُسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے ۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے، ایک مقصدِ عظیم اس کے اندر کارفرما ہے ، اور اس کا ایک دَور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اُس پُورے کام کا حساب لے جو اُس دَور میں انجام پایا ہو اور اسی دَور کے نتائج پر دُوسرے دَور کی بُنیاد رکھے۔ یہی بات ہے جو دُوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً۔”اے ہمارے ربّ، تُو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآ ءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ۔” ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُر ْجَعُوْنَ۔” تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے“ ؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظام ِ کائنات حق کی ٹھوس بُنیادوں پر قائم کیا ہے ۔ عدل اور حکمت اور راستی کے قوانین پر اس کی ہر چیز مبنی ہے۔ باطل کے لیے فی الحقیقت اس نظام میں جڑ پکڑنے اور بار آور ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ اَور بات ہے کہ اللہ باطل پرستوں کو موقع دیدے کہ وہ اگر اپنے جھُوٹ اور ظلم اور ناراستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اپنی کوشش کر دیکھیں۔ لیکن آخر کار زمین باطل کے ہر بیج کو اُگل کر پھینک دے گی اور آخری فرد حساب میں ہر باطل پرست دیکھ لے گا کہ جو کوششیں اس نے اس شجرِ خبیث کی کاشت اور آبیاری میں صرف کیں وہ سب ضائع ہو گئیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس ساری کائنات کو بربنائے حق پیدا کیا ہے اور اپنے ذاتی حق کی بنا پر ہی وہ اس پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اس کا حکم یہاں اس لیے چلتا ہے کہ وہی اپنی پیدا کی ہوئی کائنات میں حکمرانی کا حق رکھتا ہے۔ دُوسروں کا حکم اگر بظاہر چلتا نظر بھی آتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ، فی الحقیقت نہ ان کا حکم چلتا ہے، نہ چل سکتا ہے ، کیونکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنا حکم چلائیں |
Surah 22 : Ayat 56
ٱلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فِى جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ
اُس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا جو ایمان رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتوں میں جائیں گے
Surah 25 : Ayat 26
ٱلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ ٱلْحَقُّ لِلرَّحْمَـٰنِۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى ٱلْكَـٰفِرِينَ عَسِيرًا
اُس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہو گی1 اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا
1 | یعنی وہ ساری مجازی بادشاہیاں اور ریاستیں ختم ہو جائیں گی جو دنیا میں انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہیں ۔ وہاں صرف ایک بادشاہی باقی رہ جائے گی اور وہ وہی اللہ کی بادشاہی ہے جو اس کائنات کا حقیقی فرمانروا ہے ۔ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہے یَوْمَ ھُمْ بٰرِزُوْنَ لَا یَخْفٰی عَلَاللہِ مِنْہُمْ شَیْءٌ ، لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ، لِلہِ الوَاح،دِ الْقَھَّا رِ ۔’’ وہ دن جب کہ یہ سب لوگ نے نقاب ہوں گے ، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہ ہو گی۔ پوچھا جائے گا آج بادشاہی کس کی ہے ؟ ہر طرف سے جواب آئے گا اکیلے اللہ کی جو سب پر غالب ہے ‘‘ (آیت 16)۔ حدیث میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول دیا گیا ہے ۔ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ میں آسمانوں اور دوسرے ہاتھ میں زمین کو لے کر فرمائے گا : انا الملک، ان الدیان، این ملوک الارض؟ این المتکبرون؟ ’’ میں ہوں بادشاہ، میں ہوں فرمانروا، اب کہاں ہیں وہ زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں وہ جبار؟ کہاں ہیں وہ متکبر لوگ ؟‘‘(یہ روایت مسند احمد، بخاری، مسلم، اور ابو داؤد میں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بیان ہوئی ہے ) |
Surah 40 : Ayat 16
يَوْمَ هُم بَـٰرِزُونَۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى ٱللَّهِ مِنْهُمْ شَىْءٌۚ لِّمَنِ ٱلْمُلْكُ ٱلْيَوْمَۖ لِلَّهِ ٱلْوَٲحِدِ ٱلْقَهَّارِ
وہ دن جبکہ سب لوگ بے پردہ ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہ ہو گی (اُس روز پکار کر پوچھا جائے گا) آج بادشاہی کس کی ہے؟1 (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحد قہار کی
1 | یعنی دنیا میں تو بہت سے برخود غلط لوگ اپنی بادشاہی و جبّاری کے ڈنکے پیٹتے رہے، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جبّاریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد(331۔301) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہوں نے یہی رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ لرزتا ہوا تخت سے اُترا، تاج سرسے اُتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری۔ |