Ayats Found (2)
Surah 92 : Ayat 4
إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ
درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں1
1 | یہ وہ بات ہے جس پر رات اور دن اور نر و مادہ کی پیدائش کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات اور دن اور نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور ان میں سے ہر دو کے آثار و نتائج باہم متضاد ہیں، اسی طرح تم لوگ جن راہوں اور مقاصد میں ا پنی کوششیں صرف کر رہے ہو وہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مختلف اور اپنے نتائج کے اعتبار سے متضاد ہیں۔ اس کے بعد کی آیات میں بتایا گیا کہ یہ تمام مختلف کوششیں دو بڑی اقسام میں تقسیم ہوتی ہیں |
Surah 92 : Ayat 10
فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلْعُسْرَىٰ
اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں 1گے
1 | اس راستے کو سخت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس پر چلنے والا اگرچہ مادی فائدوں اور دنیوی لذتوں اور ظاہری کامیابیوں کے لالچ میں اس کی طرف جاتا ہے، لیکن اس میں ہر وقت اپنی فطرت سے، اپنے ضمیر سے، خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین سے، اور اپنے گرد و پیش کے معاشرے سے اس کی جنگ برپا رہتی ہے۔ صداقت، امانت، شرافت اور عفت و عصمت کی اخلاقی حدوں کو توڑ کر جب وہ ہر طریقے سے اپنی اغراض اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب اس کی ذات سے خلق خدا کو بھلائی کے بجائے برائی ہی پہنچتی ہے، اور جب وہ دوسروں کے حقوق اور ان کی عزتوں پر دست درازیاں کرتا ہے، تو اپنی نگاہ میں وہ خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اسے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ کمزور ہو تو اس روش کی بدولت اسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی ہوتی ہیں، اور اگر وہ مال دار طاقتور اور با اثر ہو تو چاہے دنیا اس کے زور کے آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس کے لیے خیر خواہی، عزت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، حتی کہ اس کے شریک کار بھی اس کو ایک حبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف افراد ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور قومیں بھی جب اخلاق کے حدود پھاند کر اپنی طاقت اور دولت کے زعم میں بد کرداری کا رویہ اختیار کرتی ہیں، تو ایک طرف باہر کی دنیا ان کی دشمن ہو جاتی ہے اور دوسری طرف خود ان کا اپنا معاشرہ جرائم، خود کشی، نشہ بازی، امراض خبیثہ، خاندانی زندگی کی تباہی ، نوجوان نسلوں کی بد راہی ، طبقاتی کشمکش، اور ظلم و جور کی روز افزوں وبا سے دو چار ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ بام عروج سے گرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں اپنے لیے لعنت اور پھٹکار کے سوا کوئی مقام چھوڑ کر نہیں جاتی۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کر لی جائے گی، برائی کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جائیں گے ، اسی کے اسباب اور وسائل اس کے لیے فراہم کر دیے جائیں گے، بدی کرنا اس کے لیے آسان ہو گا اور نیکی کرنے کے خیال سے اس کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے اس ک یجان پر بن رہی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے دوسری جگہ قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے) جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے‘‘۔ (الانعام، آیت 125)۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے ’’بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر فرماں بردار بندوں کے لیے نہیں ‘‘ (البقرہ، 46)۔ اور منافقین کے متعلق فرمایا ’’وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں‘‘ (التوبہ، آیت 54)۔ اور یہ کہ ’’ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں‘‘ (التوبہ ، آیت 98) |