Ayats Found (3)
Surah 3 : Ayat 180
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ هُوَ خَيْرًا لَّهُمۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِۦ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ وَلِلَّهِ مِيرَٲثُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے نہیں، یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
Surah 57 : Ayat 10
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَٲثُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ لَا يَسْتَوِى مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ ٱلْفَتْحِ وَقَـٰتَلَۚ أُوْلَـٰٓئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعْدُ وَقَـٰتَلُواْۚ وَكُلاًّ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے1 تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں2 جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے3
3 | یعنی اللہ جس کو جو اجر اور مرتبہ بھی دیتا ہے یہ دیکھ کر دیتا ہے کہ کس نے کن حالا ت میں کس جذبے کے ساتھ کیا عمل کیا ہے ۔ اس کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ ہر ایک کا درجہ اور اس کے عمل کا اجر پوری باخبری کے ساتھ تعین کرتا ہے |
2 | یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جاۓ گی، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ ’’ فتح‘‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لا حد ھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احد کم ولا نصیفہ۔ ’’ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا‘‘ (ان جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو تعیم اصفہانی)۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرمانے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دوسران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰنؓ سے کہا ’’ تم لوگ اپنی پچھلی خدامت کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو‘‘۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ’’ اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالدؓ اسی صلح کے بعد ایمان لاۓ تھے اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جاۓ یا فتح مکہ، بہر حال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جاۓ جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں |
1 | اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے ۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے ، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہو جاۓ۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا، البتہ فرق یہ ہو گا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوۓ تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مال ہے ، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے ،بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے : قُلْاِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ، وَمَآ اَنْفَقُتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ الرَّا زِقِیْنَo (سبا۔ 39)۔ اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے |
Surah 19 : Ayat 40
إِنَّا نَحْنُ نَرِثُ ٱلْأَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ
آخرکار ہم ہی زمین اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے1
1 | یہاں وہ تقریر ختم ہوتی ہے جو عیسائیوں کو سنانے کے لیے نازل فرمائی گئی تھی۔ اس تقریر کی عظمت کا صحیح اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اس کو پڑھتے وقت وہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھے جو ہم نے اس سورے کے درمیان میں کیا ہے۔ یہ تقریر اس موقع پر نازل ہوئی تھی جبکہ مکے کے مظلوم مسلمان ایک عیسائی سلطنت میں پناہ لینے کے لیے جار ہے تھے، اوراس غرض کے لیے نازل کی گئی تھی کہ جب وہاں مسیح کے متعلق اسلامی عقائد کا سوال چھڑے تو یہ ’’سرکاری بیان‘‘ عیسائیوں کو سنا دیا جاۓ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو سکتا ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو کسی حال میں بھی حق صداقت کے معاملے میں مداہنت برتنا نہیں سکھایا ہے۔ پھر وہ سچے مسلمان جو حبش کی طرف ہجرت کر کے گۓ تھے، ان کی قوت ایمانی بھی حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے عین دربار شاہی میں ایسے نازک موقع پر اٹھ کر یہ تقریر سنا دی جبکہ نجاشی کے تمام اہل دربار رشوت کا کھار انہیں ان کے دشمنوں کے سپرد کر دینے پر تل گۓ تھے۔ اس وقت اس امر کا پورا خطرہ تھا۔ کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد پراسلام کا یہ بے لاگ تبصرہ سن کر نجاشی بھی بگڑ جاۓ گا اور ان مظلوم مسلمانوں کو قریش کے قصائیوں کے حوالے کر دے گا۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے کلمہ حق پیش میں ذرہ بر تامل نہ کیا۔ |