Ayats Found (52)
Surah 2 : Ayat 115
وَلِلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے1 اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے2
2 | یعنی اللہ تعالٰی محدود،تنگ دل، تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہے ، جیسا کہ تم لوگوں نے اپنے اوپر قیاس کر کے اسے سمجھ رکھا ہے، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع ہے اور اس کا زاویہء نظر اور دائرہٴ فیض بھی وسیع اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ کہاں کس وقت کس نیت سے اس کو یاد کر رہا ہے |
1 | یعنی اللہ نہ شرقی ہے، نہ غربی۔ وہ تمام سمْتوں اور مقاموں کا مالک ہے، مگر خود کسی سمت یا کسی مقام میں مقید نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی عبادت کے لیے کسی سمْت یا کسی مقام کو مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ وہاں یا اس طرف رہتا ہے۔ اور نہ یہ کوئی جھگڑنے اور بحث کرنے کے قابل بات ہے کہ پہلے تم وہاں یا اس طرف عبادت کرتے تھے، اب تم نے اس جگہ یا سمْت کو کیوں بدل دیا |
Surah 2 : Ayat 142
۞ سَيَقُولُ ٱلسُّفَهَآءُ مِنَ ٱلنَّاسِ مَا وَلَّـٰهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ ٱلَّتِى كَانُواْ عَلَيْهَاۚ قُل لِّلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُۚ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
نادان لوگ ضرور کہیں گے : اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے؟ اے نبی، ان سے کہو: "مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے3
3 | یہ ان نادانوں کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اُن کے دماغ تنگ تھے ، نظر محدُود تھی، سمت اور مقام کے بندے بنے ہوئے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ خدا کسی خاص سمت میں مُقَیّد ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ان کے جاہلانہ اعتراض کی تردید میں یہی فرمایا گیا کہ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ کسی سمت کو قبلہ بنانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ اسی طرف ہے۔ جِن لوگوں کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے، وہ اس قسم کی تنگ نظریوں سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان کے لیے عالمگیر حقیقتوں کے ادراک کی راہ کھُل جاتی ہے۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۵، نمبر۱۱۶) |
Surah 35 : Ayat 13
يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّىۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُۚ وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ
وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے1 چاند اور سورج کو اُس نے مسخر کر رکھا ہے2 یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں) تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں3
3 | اصل میں لفظ قِطْمِیْر استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ پتلی سی جھلّی ہے جو کھجور کی گٹھلی پر ہوتی ہے۔ لیکن اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ مشرکین کے معبود کسی حقیر سے حقیر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے لفظی ترجمہ چھوڑ کر مرادی ترجمہ کیا ہے۔ |
2 | ایک ضابطے کا پابند بنا رکھا ہے |
1 | یعنی دن کی روشنی آہستہ آہستہ گھٹنی شروع ہوتی ہے اور رات کی تاریکی بڑھتے بڑھتے آخر کار پوری طرح چھا جاتی ہے۔ اسے طرح رات کے آخر میں پہلے اُفق پر ہلکی سے روشنی نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ روز روشن نکل آتا ہے |
Surah 39 : Ayat 6
خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ ثَمَـٰنِيَةَ أَزْوَٲجٍۚ يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَـٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَـٰتٍ ثَلَـٰثٍۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا 1اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے2 وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے3 یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے4، بادشاہی اسی کی ہے5، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے6، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟7
7 | یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم کدھر پھرے جا رہے ہو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو۔ یعنی کوئی دوسرا ہے جو تم کو اُلٹی پٹی پڑھا رہا ہے اور تم اس کے بہکائے میں آ کر ایسی سیدھی سی عقل کی بات بھی نہیں سمجھ رہے ہو۔ دوسری بات جو اس اندازِ بیان سے خود مترشح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم کا خطاب پھرانے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان کے اثر میں آ کر پھر رہے تھے۔ اس میں ایک لطیف مضمون ہے جو ذرا سے غور فکر سے بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ پھرانے والے اسی معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے اور ہر طرف اپنا کام علانیہ کر رہے تھے، اس لیے ان کا نام لینے کی حاجت نہ تھی۔ ان کو خطاب کرنا بھی بیکار تھا، کیونکہ وہ اپنی اغراض کے لیے لوگوں کو خدائے واحد کی بندگی سے پھیرنے اور دوسروں کی بندگی میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ سمجھانے سے سمجھنے والے نہ تھے، کیونکہ نہ سمجھنے ہی سے ان کا مفاد وابستہ تھا، اور سمجھنے کے بعد بھی وہ اپنے مفاد کو قربان کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہو سکتے تھے۔ البتہ رحم کے قابل ان عوام کی حالت تھی جو ان کے چکمے میں آ رہے تھے۔ اُن کی کوئی غرض اس کاروبار سے وابستہ نہ تھی، اس لیے وہ سمجھانے سے سمجھ سکتے تھے۔ اور ذرا سی آنکھیں کھُل جانے کے بعد وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ انہیں خدا کے آستانے سے ہٹا کر دوسرے آستانوں کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپنے اس کاروبار کا فائدہ کیا اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کرنے والے چند آدمیوں سے رُخ پھیر کر گمراہ ہونے والے عوام کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔ |
6 | دوسرے الفاظ میں استدلال یہ ہے کہ جب وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی ساری بادشاہی ہے تو پھر لازماً تمہارا اِلٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔دوسرا کوئی اِلٰہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ نہ پروردگاری میں اس کا کوئی حصّہ نہ بادشاہی میں اس کا کوئی دخل۔ آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے سماتی ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو ہو اللہ۔ سورج اور چاند کو مسخّر کرنے والا اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا بھی ہو اللہ۔ تمہارا اپنا اور تمام حیوانات کا خالق و رب بھی ہو اللہ۔ اور تمہارے معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔ |
5 | یعنی تمام اختیارات کا مالک وہی ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چل رہا ہے |
4 | یعنی مالک، حاکم اور پروردگار۔ |
3 | تین پردوں سے مراد ہے پیٹ، رحم اور مَشِیْمَہ (وہ جھلّی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے)۔ |
2 | مویشی سے مراد ہیں اُونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری۔ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ نر و مادہ ہوتے ہیں۔ |
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے حضرت آدم سے انسانوں کو پیدا کر دیا اور پھر ان کی بیوی حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ بلکہ یہاں کلام میں ترتیبِ زمان کے بجائے ترتیبِ بیان ہے جس کی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔مثلاً ہم کہتے ہیں تم نے آج جو کچھ کیا وہ مجھے معلوم ہے، پھر جو کچھ تم کل کر چکے ہو اس سے بھی میں باخبر ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ کل کا واقعہ آج کے بعد ہوا ہے۔ |
Surah 64 : Ayat 1
يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۖ لَهُ ٱلْمُلْكُ وَلَهُ ٱلْحَمْدُۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے1 اسی کی بادشاہی ہے2 اور اسی کے لیے تعریف ہے3 اور وہ ہر چیز پر قادر ہے4
4 | یعنی وہ قادر مطلق ہے۔ جو کچھ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ کوئی طاقت اس کی قدرت کو محدود کرنے والی نہیں ہے |
3 | با لفاظ دیگر وہی اکیلا تعریف کا مستحق ہے، دوسری جس ہستی میں بھی کوئی قابل تعریف خوبی پائی جاتی ہے وہ اسی کی عطا کی ہوئی ہے۔ اور اگر حمد کا شکر کے معنی میں لیا جاۓ تو شکر کا بھی اصل مستحق وہی ہے، کیونکہ ساری نعمتیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ساری مخلوقات کا حقیقی محسن اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری کسی ہستی کے کسی احسان کا ہم شکر یہ ادا کرتے ہیں تو اس بنا پر کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی نعمت اس کے ہاتھوں ہم تک پہنچائی، ورنہ وہ خود نہ اس نعمت کا خالق ہے، نہ اللہ کی توفیق کے بغیر وہ اس نعمت کو ہم تک پہنچا سکتا تھا |
2 | یعنی یہ پوری کائنات تنہا اسی کی سلطنت ہے۔ وہ صرف ا س کو بنا کر اور ایک دفعہ حرکت دے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ وہی عملاً اس پر ہر آن حکومت کر رہا ہے۔ اس حکومت و فرمان روائی میں کسی دوسرے کا قطعاً کوئی دخل یا حصہ نہیں ہے۔ دوسروں کو اگر عارضی طور پر اور محدود پیمانے پر اس کائنات میں کسی جگہ تصرف یا ملکیت یا حکمرانی کے اختیارات حاصل ہیں تو وہ ان کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں جو انہیں اپنے زور پر حاصل ہوۓ ہوں، بلکہ وہ اللہ تعالٰی کے دیے ہوۓ ہیں، جب تک اللہ چاہے وہ انہیں حاصل رہتے ہیں، اور جب چاہے وہ انہیں سلب کر سکتا ہے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ الحدید، حاشیہ 1۔ بعد کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ کلام کا آغاز اس فقرے سے کیوں کیا گیا ہے۔ آگر کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں بنائی ہے۔ اور انسان یہاں غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ جو کچھ چاہے کرتا پھرے، کوئی اس سے باز پُرس کرنے والا نہ ہو۔ اور اس کائنات کا فرمانروا کوئی شہِ بے خبر نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں جو کچھ ہو رہا ہو اس کا کوئی علم اسے نہ ہو۔ اس مضمون کی بہترین تمہید وہی ہو سکتی تھی جو اس مختصر سے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں کی انتہائی وسعتوں تک جدھر بھی تم نگاہ کرو گے، اگر تم عقل کے اندھے نہیں ہو تو تمہیں صاف محسوس ہو گا کہ ایک ذرے سے لے کر عظیم ترین کہکشانوں تک ہر چیز نہ صرف خدا کے وجود پر گواہ ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی دے رہی ہے کہ اس کا خدا ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے۔ اس کی ذات و صفات، اور اس کے افعال و احکام میں کسی عیب و خطا، یا کسی کمزوری اور نقص کا ادنیٰ درجے میں بھی کوئی احتمال ہوتا تو یہ کمال درجہ حکیمانہ نظام وجود ہی میں نہ آ سکتا تھا،کجا کہ ازل سے ابد تک ایسے اٹل طریقہ سے چل سکتا |
Surah 2 : Ayat 107
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ
کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمیں اور آسمان کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟
Surah 5 : Ayat 40
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے
Surah 3 : Ayat 189
وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہے اور اس کی قدرت سب پر حاوی ہے
Surah 24 : Ayat 42
وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے
Surah 45 : Ayat 27
وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ ٱلْمُبْطِلُونَ
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے1، اور جس روز قیامت کی گھڑی آ کھڑی ہو گی اُس دن باطل پرست خسارے میں پڑ جائیں گے
1 | سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جاۓ تو اس فقرے سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو خدا اس عظیم الشان کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے اس کی قدرت سے یہ بات ہر گز بعید نہیں ہے کہجن انسانوں کو وہپہلے پیدا کرچکا ہے انہیں دوبارہ وجود میں لے آۓ |