Ayats Found (11)
Surah 11 : Ayat 91
قَالُواْ يَـٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَٮٰكَ فِينَا ضَعِيفًاۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَـٰكَۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ
انہوں نے جواب دیا 1"اے شعیبؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو2"
2 | یہ بات پیش نظر رہے کہ بعینہ یہی صورت حال ان آیات کے نزول کے وقت مکہ میں درپیش تھی اس وقت قریش کے لوگ بھی اسی طرح محمدﷺ کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ کر دیں لیکن صرف اس وجہ سے آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے تھے کہ بنی ہاشم آپ کی پشت پر تھے پس حضرت شعیب اور ان کی قوم کا یہ قصہ ٹھیک ٹھیک قریش اور محمدﷺ کے معاملہ پر چسپاں کرتے ہوئے بیان کیا جارہا ہے اور آگے حضرت شعیب کا جو انتہائے سبق آموز جواب نقل کیا گیا ہے اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اے قریش کے لوگو تم کو بھی محمد کی طرف سے یہی جواب ہے |
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی اندازِی بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے ، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے۔ اب اگر تم خود راست رو بننا چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبر دستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا |
Surah 18 : Ayat 95
قَالَ مَا مَكَّنِّى فِيهِ رَبِّى خَيْرٌ فَأَعِينُونِى بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا
اس نے کہا 1" جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں
1 | یعنی فرمانروا ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کو غارت گروں کے حملے سے بچاؤں۔ اس ملک کے لیے تم پر کوئی الگ ٹیکس لگانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ ملک کا جو خزانہ اللہ تعالٰی نے میرے حوالے کیا ہے وہ اس خدمت کے لیے کافی ہے۔ البتہ ہاتھ پاؤں کی محنت سے تم کو میری مدد کرنی ہو گی۔ |
Surah 19 : Ayat 12
يَـٰيَحْيَىٰ خُذِ ٱلْكِتَـٰبَ بِقُوَّةٍۖ وَءَاتَيْنَـٰهُ ٱلْحُكْمَ صَبِيًّا
"اے یحییٰؑ! کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لے1" ہم نے اُسے بچپن ہی میں 2"حکم" سے نوازا
2 | ’’حکم‘‘ یعنی قوت فیصلہ، قوت اجتہاد،تفقہ فی الدین معاملات میں صحیح راۓ قائم کرنی کی صلاحیت اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار۔ |
1 | بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمان الی کے مطابق حضرت یحیی پیدا ہوۓ اور جوانی کی عمر کو پہنچے۔اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام ان سے لیا گیا۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں۔ |
Surah 22 : Ayat 5
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــًٔاۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجِۭ بَهِيجٍ
لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے1، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی2 (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے3 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی
3 | یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پرہنسنے لگتے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس ہے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے |
1 | اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گۓ تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کی سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآ ءٍ مَّھِیْنٍ O (آیات 7۔8) ’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے |
Surah 27 : Ayat 33
قَالُواْ نَحْنُ أُوْلُواْ قُوَّةٍ وَأُوْلُواْ بَأْسٍ شَدِيدٍ وَٱلْأَمْرُ إِلَيْكِ فَٱنظُرِى مَاذَا تَأْمُرِينَ
اُنہوں نے جواب دیا "ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے"
Surah 28 : Ayat 26
قَالَتْ إِحْدَٮٰهُمَا يَـٰٓأَبَتِ ٱسْتَــْٔجِرْهُۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ ٱسْتَــْٔجَرْتَ ٱلْقَوِىُّ ٱلْأَمِينُ
ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا "ابّا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبُوط اور امانت دار ہو1"
1 | ضروری نہیں کہ یہ بات لڑکی نے اپنے باپ سے حضرت موسٰیؑ کی پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو۔ اغلب یہ ہے کہ اس کے والد نے اجنبی مسافر کوایک دوروز اپنے پاس ٹھیرالیا ہوگا اوراس دوران میں کسی وقت بیٹی نے باپ کو یہ مشورہ دیاہوگا۔ اس مشورےکامطلب یہ تھا کہ آپ کی خبرسنی کے باعث مجبوراََ ہم لڑکیوں کوکام لےلیے نکلنا پڑتا ہے۔ ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے کہ باہر کے کام سنبھالے۔ آپ اس شخص کوملازم رکھ لیں۔ مضبوط آدمی ہے، ہرطرح کی مشقت کرلے گا۔ اوربھروسے کے قابل آدمی ہے۔ محض اپنی شرافت کی بنا پراس نے ہم عورتوں کو بے بس کھڑادیکھ کرہماری مددکی ۔ اورکبھی ہماری طرف نظراُٹھاکرنہ دیکھا۔ |
Surah 28 : Ayat 35
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَـٰنًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَاۚ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أَنتُمَا وَمَنِ ٱتَّبَعَكُمَا ٱلْغَـٰلِبُونَ
فرمایا "ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہو گا1"
1 | اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت موسٰیؑ کی اس ملاقات اورگفتگو کاحال اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورہ طٰہٰ(آیت ۹تا۴۸) میںبیان ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس بیان کاجوشخص بھی اُس داستان سے مقابلہ کرےگا جواس سلسلہ میںبائیبل کی کتاب خروج(باب ۴،۳) میںبیان کی گئی ہے، اوراگر کچھ ذوق سلیم رکھتا ہوتو خود محسوس کرلے گا کہ ان دونوں میں سے کلام الٰہی کونسا ہے اورانسانی داستان گوئی کااطلاق کس پرہوتا ہے۔ نیز وہ اس معاملہ میں بھی بآسانی رائے قائم کرسکےگا کہ آیا قرآن کی یہ روایت معاذاللہ بائیبل اوراسرئیلی روایات کی نقل ہے، یا وہ خداخود اصل واقعہ بیان فرمارہاہے جس نے حضرت موسٰیؑ کوباریاب فرمایا تھا ۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ حاشیہ ۱۹) |
Surah 28 : Ayat 76
۞ إِنَّ قَـٰرُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْۖ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِنَ ٱلْكُنُوزِ مَآ إِنَّ مَفَاتِحَهُۥ لَتَنُوٓأُ بِٱلْعُصْبَةِ أُوْلِى ٱلْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُۥ قَوْمُهُۥ لَا تَفْرَحْۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْفَرِحِينَ
یہ ایک واقعہ ہے1 کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا2 اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی3 ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا "پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا
3 | بائیبل(گنتی، باب ۱۶) میں اس کاجوقصہ بیان کیاگیا ہےاس میں اس شخص کی دولت کاکوئی ذکر نہیں ہے مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کامالک تھا حتٰی کہ اس کےخزانوں کی کنجیاں اُٹھانے کےلیے تین سوچر درکار ہوتے تھے(جیوش اسائیکلوپیڈیا،ج ۷ ص۵۵۶ )۔ یہ بیان اگرچہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے، لیکن اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسرئیلی روایات کی روسے بھی قارون اپنے وقت کابہت بڑا دولت مند آدمی تھا۔ |
2 | قارون، جس کانام بائیبل اورتلمود میںقورح (Korah) بیان کیاگیا ہے، حضرت موسٰی علیہ السلام کاچچازاد بھائی تھا۔ بائیبل کی کتاب خروج (باب۶۔آیت۱۸۔۱۶) میں جونسب نامہ درج ہے اس کی روسے حضرت موسٰیؑ اورقارون کےوالد باہم سگے بھائی تھے۔ قرآن مجید میںدوسری جگہ یہ بتایا گیا ہےکہ یہ شخص بنی اسرائیل میںسے ہونے کےباوجود فرعون کےساتھ جاملا تھااوراس کامقرب بن کراس حد کوپہنچ گیا تھا کہ موسٰی علیہ السلام کی دعوت کےمقابلے میں فرعون کےبعد مخالفت کےجودوسب سےبڑے سرغنے تھے ان میںسے ایک یہی قارون تھا: وَلَقَدْ اَرْسَلْنا مُوْسٰی بِاٰیِتِنَا وَسُلْطٰنِِ مُّبِِیْنِِ، اِلٰی فِرْعَوْنَ وَھَاَمَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌکَذَّابٌْ (المومن۔آیت ۲۳۔۲۴) ہم نے موسٰیؑ کواپنی نشانیوں اورکھلی دلیل کے ساتھ فرعون اورہامان اورقارون کی طرف بھیجا،مگر انہوں نے کہاکہ یہ ایک جادوگرہےسخت جھوٹا۔اس سے واضح ہوجاتاہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہوکراُس دشمن طاقت کاپٹھوبن گیاتھاجوبنی اسرئیل کوجڑ بنیاد سے ختم کردینےپرتلی ہوئی تھی۔ اوراس قومی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میںیہ مرتبہ حاصل کرلیا تھاکہ حضرت موسٰی ؑ فرعون کے علاوہ مصر کی جن دوبڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دوہی تھی، ایک فرعون کاوزیر ہامان اوردوسرا ی ہاسرئیلی سیٹھ۔ باقی سب اعیان سلطنت اوردربار ان سے کم تر درجے میںتھے جس کا خاص طور پرنام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ قارون کی یہی پوزیشن سورہ عنکبوت کی آیت ۳۹ میںبھی بیان گی گئی ہے۔ |
1 | یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اُسی عزر کےجواب میںبیان کیاجارہا ہےجس پرآیت ۵۷ سے ملسل تقریر ہورہی ہے۔ اس سلسلہ میںیہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے محمد ﷺ کی دعوت سے قومی مفاد پرضرب لگنے کاخطرہ ظاہر کیاتھا وہ دراصل مکہ کے بڑےبڑے سیٹھ ساہیوکار اورسرمایہ دارتھے جنہیں بین الاقوامی تجارے اورسود خواری نے قارون وقت بنارکھاتھا۔ یہی لوگ اپنی جگہ یہ سمجھےبیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ دولت سمیٹو۔ اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے اندیشہ ہووہ سراسر باطل ہےجسے کسی حال میںقبول نہیں کیاجاسکتا۔دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کوآرزو بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اوران کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پریہ لوگ پہنچےہوئے ہیں، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہوجائے۔اس زرپرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جارہی تھی کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) جس توحید وآخرت کی، اورجس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے توقریش کی عظمت کایہ فلک بوس قصر زمین پرآرہے گااورتجارتی کاروبار تودرکنار جینے تک کےلالےپڑجائیں گے |
Surah 30 : Ayat 54
۞ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةًۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۖ وَهُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْقَدِيرُ
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی، پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے1 اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
1 | یعنی بچپن،جوانی اوربڑھاپا،یہ ساری حالتیں اسی کی پیداکردہ ہیں۔یہ اسی کی مشیت پرموقوف ہے کہ جسے چاہےکمزورپیداکرےاورجس کوچاہےطاقت وربنائے،جسےچاہے بچپن سے جوانی تک نہ پہنچنےدےاورجس کوچاہےجوان مرگ کردے،جسےچاہے لمبی عمردےکربھی تندرست وتوانارکھے اورجس کو چاہےشاندار جوانی کےبعد بڑھاپے میں اس طرح ایڑیاں رگڑوائےکہ دنیااسے دیکھ کرعبرت کرنے لگے۔انسان اپنی جگہ جس گھمنڈ میں چاہے مبتلا ہوتارہےمگرخداکےقبضہٴ قدرت میں وہ اِس طرح بے بس ہے کہ جوحالت بھی خدااس پرطاری کردےاسے وہ اپنی کسی تدبیرسےنہیں بدل سکتا۔ |
Surah 38 : Ayat 45
وَٱذْكُرْ عِبَـٰدَنَآ إِبْرَٲهِيمَ وَإِسْحَـٰقَ أُوْلِى ٱلْأَيْدِى وَٱلْأَبْصَـٰرِ
اور ہمارے بندوں، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے1
1 | اصل الفاظ ہیں اُو لِی الْاَ یْدِ یْ وَالْاَبْصَارِ (ہاتھوں والے اور نگاہوں والے)۔ ہاتھ سے مراد، جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں، قوت و قدرت ہے۔ اور ان انبیاء کو صاحب قوت و قدرت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہایت با عمل لوگ تھے، اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنے اور معصیتوں سے بچنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے،اور دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے انہوں نے بڑی کوششیں کی تھیں۔نگاہ سے مراد آنکھوں کی بینائی نہیں بلکہ دل کی بصیرت ہے۔وہ حق ہیں اور حقیقت شناس لوگ تھے۔دنیا میں اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی پوری روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے۔ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو لوگ بد عمل اور گمراہ ہیں وہ درحقیقت ہاتھوں اور آنکھوں،دونوں سے محروم ہیں۔ہاتھ والا حقیقت میں وہی ہے اللہ کی راہ میں کام کرے اور آنکھوں والا دراصل وہی ہے جو حق کی روشنی اور باطل کی تاریکی میں امتیاز کرے۔ |