Ayats Found (5)
Surah 8 : Ayat 20
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَوَلَّوْاْ عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو
Surah 8 : Ayat 65
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ حَرِّضِ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَى ٱلْقِتَالِۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَـٰبِرُونَ يَغْلِبُواْ مِاْئَتَيْنِۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّاْئَةٌ يَغْلِبُوٓاْ أَلْفًا مِّنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے1
1 | آج کل کی اصطلاح میں چیز کو قوتِ معنوی یا قوتِ اخلاقی (Morale )کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسی کو فقہ و فہم اور سمجھ بوجھ (Understanding ) سے تعبیر کیا ہے، اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ جس چیز کے لیے وہ جان کی بازی لگانے آیا ہے وہ اس کی انفرادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کے بعد جینا بے قیمت ہے، وہ بے شعوری کے ساتھ لڑنے والے آدمی سے کئی گنی زیادہ طاقت رکھتا ہے اگر چہ جسمانی طاقت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ پھر جس شخص کو حقیقت کا شعور حاصل ہو، جو اپنی ہستی اور خدا کی ہستی اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور حیات دنیا کی حقیقت اور موت کی حقیقت اور حیات بعد موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہو اور جسے حق اور باطل کے فرق اور غلبہ باطل کے نتائج کا بھی صحیح اوراک ہو، اس کی طاقت کو تو وہ لوگ بھی نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت یا طبقاتی نزاع کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرةً ایک اوردس کی نسبت ہے۔ لیکن یہ نسبت صرف سمجھ بوجھ سے قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے |
Surah 8 : Ayat 66
ٱلْـَٔـٰنَ خَفَّفَ ٱللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًاۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّاْئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِاْئَتَيْنِۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوٓاْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے1، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں
1 | اس کا مطلب نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آگئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سروست بر سبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ ارشادسن۲ ھج کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہوگئی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے |
Surah 11 : Ayat 52
وَيَـٰقَوْمِ ٱسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓاْ إِلَيْهِ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْاْ مُجْرِمِينَ
اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا1 مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو"
1 | یہ وہی بات ہے جو پہلے رکوع میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوائی گئی تھی کہ”اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو ہوہ تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی قوموں کی قسمتوں کا اتار چڑھاؤ اخلاقی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عالم پر جو فرمانروائی کر رہا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ اُن طبعی اصولوں پر جو اخلاقی خیر و شر کے امتیاز خالی ہوں۔ یہ بات کئی مقامات پر قرآن میں فرمائی گئی ہے کہ جب ایک قوم کے پاس نبی کے ذریعہ سے خدا کا پیغام پہنچتا ہے تو اس کی قسمت اُس پیغام کے ساتھ معلق ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول کر لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر رد کر دیتی ہے تو اسے تباہ کر ڈالا جاتا ہے ۔ یہ گویا ایک دفعہ ہے اُس اخلاقی قانون کی جس پر اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔ اِسی طرح اس قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ جو قوم دنیا کی خوشحالی سے فریب کھا کر ظلم و معصیت کی راہوں پر چل نکلتی ہے اس کا انجام بربادی ہے۔ لیکن عین اس وقت جبکہ وہ اپنے اس بُرے انجام کی طرف بگ ٹُٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے ، اس کی مہلت عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقل میں اس کے لیے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے |
Surah 11 : Ayat 80
قَالَ لَوْ أَنَّ لِى بِكُمْ قُوَّةً أَوْ ءَاوِىٓ إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ
لوطؑ نے کہا "کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تمہیں سیدھا کر دیتا، یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا"