Ayats Found (2)
Surah 25 : Ayat 45
أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ ٱلظِّلَّ وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَهُۥ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا ٱلشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلاً
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا ہم نے سورج کو اُس پر دلیل بنایا1
1 | یہاں لفظ دلیل ٹھیک اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں انگریزی لفظ (Pilot) استعمال ہوتا ہے ۔ ملاحوں کی اصطلاح میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو کشتیوں کو راست بتاتا ہوا چلے ۔ سائے پر سورج کو دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ سائے کا پھیلنا اور سکڑنا سورج کے عروج و زوال اور طلوع و غروب کا تابع ہے ۔ ساۓ سے مراد روشنی اور تاریکی کے بین بین وہ درمیانی حالت ہے جو صبح کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے ہوتی ہے اور دن بھر مکانوں میں ، دیواروں کی اوٹ میں اور درختوں کے نیچے رہتی ہے |
Surah 25 : Ayat 46
ثُمَّ قَبَضْنَـٰهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا
پھر (جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں1
1 | اپنی طرف سمیٹنے سے مرد غائب اور فنا کرنا ہے ، کیونکہ ہر چیز جو فنا ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف پلٹتی ہے ۔ ہر شے اسی کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف جاتی ہے ۔ اس آیت کے دو رخ ہیں ۔ ایک ظاہری، دوسرا باطنی ۔ ظاہر کے اعتبار سے یہ غفلت میں پڑے ہوئے مشرکین کو بتا رہی ہے کہ اگر تم دنیا میں جانوروں کی طرح نہ جیتے اور کچھ عقل و ہوش کی آنکھوں سے کام لیتے تو یہی سایہ جس کا تم ہر وقت مشاہدہ کرتے ہو، تمہیں یہ سبق دینے کے لیے کافی تھا کہ نبی جس میں توحید کی تعلیم تمہیں دے رہا ہے وہ بالکل بر حق ہے ۔ تمہاری ساری زندگی اسی سائے کے مد و جزر سے وابستہ ہے ۔ ابدی سایہ ہو جائے تو زمین پر کوئی جاندار مخلوق ، بلکہ نباتات تک باقی نہ رہ سکے ، کیونکہ سورج کی روشنی و حرارت ہی پر ان سب کی زندگی موقوف ہے ۔ سایہ بالکل نہ رہے تب بھی زندگی محال ہے ، کیونکہ ہر وقت سورج کے سامنے رہنے اور اس کی شعاعوں سے کوئی پناہ نہ پا سکنے کی صورت میں نہ جاندار زیادہ دیر تک باقی رہ سکتے ہیں نہ نباتات ، بلکہ پانی تک کی خیر نہیں ۔ دھوپ اور سائے میں یک لخت تغیرات ہوتے رہیں تب بھی زمین کی مخلوقات ان جھٹکوں کو زیادہ دیر تک نہیں سہار سکتی ۔ مگر ایک صانع حکیم اور قادر مطلق ہے جس نے زمین اور سورج کے درمیان ایسی مناسبت قائم کر رکھی ہے جو دائماً ایک لگے بندھے طریقے سے آہستہ آہستہ سایہ ڈالتی اور بڑھاتی گھٹاتی ہے اور بتدریج دھوپ نکالتی اور چڑھاتی اتارتی رہتی ہے ۔ یہ حکیمانہ نظام نہ اندھی فطرت کے ہاتھوں خود بخود قائم ہو سکتا تھا اور نہ بہت سے با اختیار خدا اسے قائم کر کے یوں ایک مسلسل با قاعدگی کے ساتھ چلا سکتے تھے ۔ مگر ان ظاہری الفاظ کے بین السطور سے ایک اور لطیف اشارہ بھی جھلک رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کفر و شرک کی جہالت کا یہ جو اس وقت چھایا ہوا ہے ، کوئی مستقل چیز نہیں ہے ۔ آفتاب ہدایت ، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں طلوع ہو چکا ہے ۔ بظاہر سایہ دور دور تک پھیلا نظر آتا ہے ، مگر جوں جوں یہ آفتاب چڑھے گا، سایہ سمٹتا چلا جائے گا۔ البتہ ذرا صبر کی ضرورت ہے ۔ خدا کا قانون کبھی یک لخت تغیرات نہیں لاتا۔ مادی دنیا میں جس طرح سورج آہستہ آہستہ ہی چڑھتا اور سایہ آہستہ آہستہ ہی سکڑتا ہے ۔ اسی طرح فکر و اخلاق کی دنیا میں بھی آفتاب ہدایت کا عروج اور سایہ ضلالت کا زوال آہستہ آہستہ ہی ہو گا |