Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 177
۞ لَّيْسَ ٱلْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِقِ وَٱلْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّــۧنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٲةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَـٰهَدُواْۖ وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُواْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف1، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں
1 | مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے ، دراصل مقصُود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پُری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے ، جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے |
Surah 3 : Ayat 47
قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِى بَشَرٌۖ قَالَ كَذَٲلِكِ ٱللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُۚ إِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
یہ سن کر مریمؑ بولی، 1"پروردگار! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا" جواب ملا، "ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے"
1 | یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچّہ پیدا ہو گا۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ (ایسا ہی ہو گا) حضرت زکریّا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا۔ اس کا جو مفہُوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اِسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم ؑ کو صِنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اِسی صورت سے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم ؑ کے ہاں اُسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیٰسی کی پیدائش فی الواقع اُسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادتِ مسیح ؑ کے باب میں قرآن کے دُوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی، اور یہُودیوں نے حضرت مریم ؑ پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اُٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ جائے۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السّلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسبِ معمُول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی اظہار ما فی الضمیر اور بیانِ مدّعا کی اُتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں (معاذاللہ) |
Surah 19 : Ayat 35
مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍۖ سُبْحَـٰنَهُۥٓۚ إِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ذات ہے وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور بس وہ ہو جاتی ہے1
1 | یہاں تک جو بات عیسائیوں کے واضح کی گئی ہے وہ کہ حضرت عیسی ؑ کے متعلق ابن اللہ ہونے کا جو عقیدہ انہوں نے اختیار رکھا ہے وہ باطل ہے۔ جس طرح معجزہ سے حضرت یحیی کی پیدائش نے ان کو خدا کا بیٹا نہیں بنا دیا اسی طرح ایک دوسرے معجزہ حضرت عیسی کی پیدائش بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا جاۓ۔ عیسائیوں کی اپنی روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ حضرت یحیی اور حضرت عیسی، دونوں ایک ایک طرح کے معجزہ سے پیدا ہوۓ تھے۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ عیسائیوں کا غلو معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بندہ کہتے ہیں اور دوسرے معجزہ سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ہیں۔ |
Surah 3 : Ayat 59
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گیا1
1 | یعنی اگر محض اعجازی پیدائش ہی کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے کے لیے کافی دلیل ہو تب تو پھر تمہیں آدم کے متعلق بدرجہٴ اولیٰ ایسا عقیدہ تجویز کرنا چاہیے تھا، کیونکہ مسیح تو صرف بے باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے ، مگر آدم ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے |
Surah 6 : Ayat 73
وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ بِٱلْحَقِّۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُۚ قَوْلُهُ ٱلْحَقُّۚ وَلَهُ ٱلْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِۚ عَـٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے1 اور جس د ن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائیگا 2اس روز پادشاہی اُسی کی ہوگی3، وہ غیب اور شہادت4 ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے
4 | غیب = وہ سب کچھ جو مخلوقات سے پوشیدہ ہے۔ شھادت = وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر و معلوم ہے |
3 | یہ مطلب نہیں ہے کہ آج بادشاہی اس کی نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس روز جب پردہ اُٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آجائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب جو با اختیار نظر آتے تھے ، یا سمجھے جاتے تھے ، بالکل بے اختیار ہیں اور بادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے |
2 | صُور پھوُنکنے کی صحیح کیفیت کیا ہوگی، اس کی تفصیل ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صُور پھُونکا جائے گا اور سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ پھرنا معلوم کتنی مدّت بعد، جسے اللہ ہی جانتا ہے، دُوسرا صُور پھُونکا جائے گا اور تمام اوّلین و آخرین ازسرِ نو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدانِ حشر میں پائیں گے۔ پہلے صُور پر سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہو گا اور دُوسرے صُور پر ایک دُوسرا نظام نئی صُورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہو جائے گا |
1 | قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے یا حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ ارشاد بہت وسیع معانی پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایشورجی کی لِیلا نہیں ہے۔ یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے وہ اس سے کھیلتا رہے اور پھر یونہی اُسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے ۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے، ایک مقصدِ عظیم اس کے اندر کارفرما ہے ، اور اس کا ایک دَور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اُس پُورے کام کا حساب لے جو اُس دَور میں انجام پایا ہو اور اسی دَور کے نتائج پر دُوسرے دَور کی بُنیاد رکھے۔ یہی بات ہے جو دُوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً۔”اے ہمارے ربّ، تُو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآ ءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ۔” ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُر ْجَعُوْنَ۔” تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے“ ؟ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظام ِ کائنات حق کی ٹھوس بُنیادوں پر قائم کیا ہے ۔ عدل اور حکمت اور راستی کے قوانین پر اس کی ہر چیز مبنی ہے۔ باطل کے لیے فی الحقیقت اس نظام میں جڑ پکڑنے اور بار آور ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ اَور بات ہے کہ اللہ باطل پرستوں کو موقع دیدے کہ وہ اگر اپنے جھُوٹ اور ظلم اور ناراستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اپنی کوشش کر دیکھیں۔ لیکن آخر کار زمین باطل کے ہر بیج کو اُگل کر پھینک دے گی اور آخری فرد حساب میں ہر باطل پرست دیکھ لے گا کہ جو کوششیں اس نے اس شجرِ خبیث کی کاشت اور آبیاری میں صرف کیں وہ سب ضائع ہو گئیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس ساری کائنات کو بربنائے حق پیدا کیا ہے اور اپنے ذاتی حق کی بنا پر ہی وہ اس پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اس کا حکم یہاں اس لیے چلتا ہے کہ وہی اپنی پیدا کی ہوئی کائنات میں حکمرانی کا حق رکھتا ہے۔ دُوسروں کا حکم اگر بظاہر چلتا نظر بھی آتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ، فی الحقیقت نہ ان کا حکم چلتا ہے، نہ چل سکتا ہے ، کیونکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنا حکم چلائیں |
Surah 16 : Ayat 40
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَىْءٍ إِذَآ أَرَدْنَـٰهُ أَن نَّقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
(رہا اس کا امکان تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں 1"ہو جا" اور بس وہ ہو جاتی ہے
1 | یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت جِلا اُٹھانا کوئی بڑا ہی مشکل کام ہے۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے کو پورا کرنے کے لیے کسی سروسامان، کسی سبب اور وسیلے، اور کسی سازگاریٔ احوال کا محتاج نہیں ہے۔ اس کا ہر ارادہ محض اس کے حکم سے پورا ہوتا ہے۔ اس کا حکم ہی سروزامان وجود میں لاتا ہے۔ اس کے حکم ہی سے اسباب و وسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا حکم ہی اس کی مراد کے عین مطابق احوال تیار کر لیتا ہے۔ اِس وقت جو دنیا موجود ہے یہ بھی مجرد حکم سے وجود میں آئی ہے، اور دوسری دنیا بھی آناً فاناً صرف ایک حکم سے ظہور میں آسکتی ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 82
إِنَّمَآ أَمْرُهُۥٓ إِذَآ أَرَادَ شَيْــًٔا أَن يَقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے
Surah 40 : Ayat 68
هُوَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُۖ فَإِذَا قَضَىٰٓ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ
وہی ہے زندگی دینے والا، اور وہی موت دینے والا ہے وہ جس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہے، بس ایک حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے اور وہ ہو جاتی ہے