Ayats Found (5)
Surah 3 : Ayat 186
۞ لَتُبْلَوُنَّ فِىٓ أَمْوَٲلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓاْ أَذًى كَثِيرًاۚ وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَٲلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو1 تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے
1 | یعنی اُن کے طعن و تشنیع، اُن کے الزامات ، اُن کے بیہُودہ طرزِ کلام اور اُن کی جھُوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اُتر آ ؤ جو صداقت و انصاف، وقار و تہذیب اور اخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں |
Surah 20 : Ayat 115
وَلَقَدْ عَهِدْنَآ إِلَىٰٓ ءَادَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِىَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُۥ عَزْمًا
ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا1، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا2
2 | یعنی اس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی سرکشی کی بنا پر نہ تھا بلکہ غفلت اور بھول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پروا کرتا ہوں، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اس کے بجاۓ اس کی نا فرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی، بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا اس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے) یاد کرتا اور اس کے دیے ہوۓ لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا۔ بعض لوگوں نے ’’اس میں عزم نہ پایا‘‘ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ہم نے اس میں نا فرمانی کا عزم نہ پایا‘‘، یعنی اس نے جو کچھ کیا بھولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو : لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْماً عَلَ الْعِصْیَانِ کہا جاتا نہ کہ محض : لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْماً۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعت حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جاۓ تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالٰی آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصہ بیان نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالٰی کی پیشگی تنبیہات کے با وجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آۓ گا کہ ’’ہم نے اس میں اطاعت امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا‘‘۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ آدم علیہ السلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نامناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی راۓ علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں : لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ’’مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی اور نہ موقع و محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد 16۔ صفحہ 243) |
1 | آدم علیہ السلام کا قصہ اس سے پہلے سورہ بقرہ، سورہ اعراف (دو مقامات پر) ، سورہ حجر، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں گزر چکا ہے۔ یہ ساتواں موقع ہے جب کہ اسے دہرایا جا رہا ہے۔ ہر جگہ سلسلہ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں۔ قصے کے جو اجزاء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوۓ ہیں، دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے، یا طرز بیان ذرا مختلف ہو گا۔ پورے قصے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا ہے۔ |
Surah 31 : Ayat 17
يَـٰبُنَىَّ أَقِمِ ٱلصَّلَوٲةَ وَأْمُرْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱنْهَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَآ أَصَابَكَۖ إِنَّ ذَٲلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
بیٹا، نماز قائم کرنے کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر1 یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے2
2 | دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اصلاحِ خلق کے لیے اُٹھنا اور اس کی مشکلات کو انگیز کرنا کم ہمت لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ان کاموں میں سے ہے جن کے لیے بڑا دِل گُردہ چاہیے۔ |
1 | اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ جو شخص بھی نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے کا کام کرے گا اس پر مصائب کا نزول ناگزیر ہے۔ دُنیا لازماً ایسے شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ جاتی ہے اور اسے ہر قسم کی اذیتوں سے سابقہ پیش آ کر رہتا ہے۔ |
Surah 42 : Ayat 43
وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٲلِكَ لَمِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ
البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے، تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے1
1 | واضح رہے کہ ان آیات میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس وقت عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں میں موجود تھیں ، اور کفار مکہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے در اصل کفار کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی بسر کرنے کا جو سر و سامان پاکر تم آپے سے باہر ہوۓ جاتے ہو، اصل دولت وہ نہیں ہے بلکہ اصل دولت یہ اخلاق اور اوصاف ہیں جو قرآن کی رہنمائی قبول کر کے تمہارے ہی معاشرے کے ان مومنوں نے اپنے اندر پیدا کیے ہیں |
Surah 46 : Ayat 35
فَٱصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُواْ ٱلْعَزْمِ مِنَ ٱلرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوٓاْ إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارِۭۚ بَلَـٰغٌۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ
پس اے نبیؐ، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو1 جس روز یہ لوگ اُس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا اِنہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو اِنہیں یوں معلوم ہو گا کہ جیسے دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے بات پہنچا دی گئی، اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہو گا؟
1 | یعنی جس طرح تمہارے پیش رو انبیاء اپنی قوم کی بے رخی، مخالفت، مزاحمت اور طرح طرح کی ایذا رسانیوں کا مقابلہ سالہا سال تک مسلسل صبر اور ان تھک جدوجہد کے ساتھ کرتے رہے اسی طرح تم بھی کرو، اور یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ یا تو یہ لوگ جلدی سے ایمان لے آۓ یا پھر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر دے |