Ayats Found (16)
Surah 6 : Ayat 134
إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَأَتٍۖ وَمَآ أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقیناً آنے والی ہے1 اور تم خدا کو عاجز کر دینے کی طاقت نہیں رکھتے
1 | یعنی قیامت، جس کے بعد تمام اگلے پچھلے انسان ازسرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اپنے ربّ کے سامنے آخری فیصلے کے لیے پیش ہوں گے |
Surah 10 : Ayat 53
۞ وَيَسْتَنۢبِــُٔونَكَ أَحَقٌّ هُوَۖ قُلْ إِى وَرَبِّىٓ إِنَّهُۥ لَحَقٌّۖ وَمَآ أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو “میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو"
Surah 11 : Ayat 33
قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ ٱللَّهُ إِن شَآءَ وَمَآ أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
نوحؑ نے جواب دیا "وہ تو اللہ ہی لائے گا، اگر چاہے گا، اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے روک دو
Surah 8 : Ayat 59
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ سَبَقُوٓاْۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ
منکرینِ حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے
Surah 9 : Ayat 2
فَسِيحُواْ فِى ٱلْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُخْزِى ٱلْكَـٰفِرِينَ
پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو1 اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے
1 | یہ اعلان ۱۰ ذی الحجہ سن ۹ ھجری کو ہوا تھا۔ اس وقت ۱۰ ربیع الثانی سن ۱۰ ھجری تک چار مہینہ کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی کہ اس دوران میں اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں۔ لڑنا ہو تو لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں ، ملک چھوڑنا ہو تو اپنی جائے پناہ تلاش کر لیں، اسلام قبول کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر قبول کر لیں |
Surah 9 : Ayat 3
وَأَذَٲنٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلنَّاسِ يَوْمَ ٱلْحَجِّ ٱلْأَكْبَرِ أَنَّ ٱللَّهَ بَرِىٓءٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَۙ وَرَسُولُهُۥۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِۗ وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن1 تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور اے نبیؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو
1 | یعنی ۱۰ ذی الحجہ جسے یو م النحر کہتے ہیں۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دن ہے؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر۔” یہ حج اکبر کا دن ہے“۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے۔ اہلِ عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقرر ہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے، وہ حج اکبر کہلاتا ہے |
Surah 11 : Ayat 20
أُوْلَـٰٓئِكَ لَمْ يَكُونُواْ مُعْجِزِينَ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَۘ يُضَـٰعَفُ لَهُمُ ٱلْعَذَابُۚ مَا كَانُواْ يَسْتَطِيعُونَ ٱلسَّمْعَ وَمَا كَانُواْ يُبْصِرُونَ
وہ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا انہیں اب دوہرا عذاب دیا جائے گا1 وہ نہ کسی کی سن ہی سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سوجھتا تھا
1 | ایک عذاب خود گمراہ ہو نے کا۔ دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور بعد کی نسلوں کے لیے گمراہی کی میراث چھوڑ جانے کا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰) |
Surah 16 : Ayat 46
أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِى تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ
یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے، یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں؟
Surah 24 : Ayat 57
لَا تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مُعْجِزِينَ فِى ٱلْأَرْضِۚ وَمَأْوَٮٰهُمُ ٱلنَّارُۖ وَلَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
جو لوگ کفر کر رہے ہیں ا ن کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین میں اللہ کو عاجز کر دیں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے1
1 | یہاں سے پھر احکام معاشرت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بعید نہیں کہ سورہ نور کا یہ حصہ اوپر کی تقریر کے کچھ مدت بعد نازل ہوا ہو |
Surah 29 : Ayat 4
أَمْ حَسِبَ ٱلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ أَن يَسْبِقُونَاۚ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں1 یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں 2گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں
2 | یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ سکیں گے اصل الفاظ میں یَسبَقُونَا یعنی ہم سے سبوت لے جائیں گے۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں (یعنی اپنے رسول کے مشن کی کامیابی) وہ تو نہ ہو سکے اور جو کچھ یہ چاہتے ہیں (یعنی ہمارے رسول کو نیچا دکھانا) وہ جو جوئے۔ دوسرا یہ کہ ہم ان کی زیادیتوں پر انہیں پکڑنا چاہتے ہوں اور یہ بھاگ کر ہماری دست رس سے دور نکل جائیں |
1 | اس سے مراد اگرچہ تمام وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالی کی نافرمانیاں کرتے ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر روئے سخن قریش کے اُن ظالم سرداروں کی طرف ہے جو اسلام کی مخالفت میں اور اسلام کرنے والوں کو اذتیں دینے میں اُس وقت پیش پیش تھے مثلا وَلِیس بن مُغیرہ ابوجہل، عُتبَہ، شَیبہ، عُقبہ بن ابی مُعیط، اور حنظلہ بن وائل وغیرہ سیاق و سباق خود یہاں تقاضا کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو آزمائشوں کے مقابلے میں صبرو ثبات کی تلقین کرنے کے بعد ایک کلمہ زجرو تو بیخ اُن لوگاں کو خطاب کر کے بھی فرمایا جائے جو ان حق پرستوں پر ظلم ڈھا رہے تھے |