Ayats Found (7)
Surah 12 : Ayat 87
يَـٰبَنِىَّ ٱذْهَبُواْ فَتَحَسَّسُواْ مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَاْيْــَٔسُواْ مِن رَّوْحِ ٱللَّهِۖ إِنَّهُۥ لَا يَاْيْــَٔسُ مِن رَّوْحِ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ
میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں"
Surah 15 : Ayat 55
قَالُواْ بَشَّرْنَـٰكَ بِٱلْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ ٱلْقَـٰنِطِينَ
اُنہوں نے جواب دیا "ہم تمہیں برحق بشارت دے رہے ہیں، تم مایوس نہ ہو"
Surah 15 : Ayat 56
قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِۦٓ إِلَّا ٱلضَّآلُّونَ
ابراہیمؑ نے کہا "اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں"
Surah 30 : Ayat 36
وَإِذَآ أَذَقْنَا ٱلنَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُواْ بِهَاۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةُۢ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں، اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں1
1 | اوپرکی آیت میں انسان کی جہالت وحماقت اوراس کی ناشکری ونمک حرامی پرگرفت تھی۔اِس آیت میں اس کے چھچھورپن اورکم ظرفی پرگرفت کی گئی ہے۔اس تُھڑدے کوجب دنیامیں کچھ دولت،طاقت،عزت نصیب ہوجاتی ہے اوریہ دیکھتا ہےکہ اس کاکام خوب چل رہاہےتواِسےیاد نہیں رہتاکہ یہ سب کچھ اللہ کادیا ہے۔یہ سمجھتا ہےکہ میرےہی کچھ سرخاب کے پرلگے ہوئے ہیں جومجھے وہ کچھ میسرہُوا جس سےدوسرے محروم ہیں۔اس غلط فہمی میں فخروغرورکانشہ اس پرایسا چڑھتا ہےکہ پھریہ نہ خداکوخاطرمیں لاتاہے نہ خلق کو۔لیکن جونہی کہ اقبال نے منہ موڑااِس کی ہمت جواب دے جاتی ہےاوربدنصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پردل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کردیتی ہےجس میں یہ ہرذلیل سے ذلیل حرکت کرگزرتاہے،حتٰی کہ خود کشی تک کرجاتاہے۔ |
Surah 39 : Ayat 53
۞ قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو1، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے2
2 | یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالٰی بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالٰی نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام اُمید لے کر آئی تھی جو جاہلیّت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔اُن سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زیدؒ نے بیان کی ہے (ابن جریر، بخاری،مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 466 تا 468 |
1 | بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خود ’’اے میرے بند‘‘ کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے۔جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سُن کر جھوم اُٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے، کیونکہ قرآن تو ازاوّل تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالٰی کا بندہ قرار دیتا ہے، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود بندے تھے۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اُسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمدؐ ہو، اعا ذ نا اللہ من ذالک۔ |
Surah 11 : Ayat 9
وَلَئِنْ أَذَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَـٰهَا مِنْهُ إِنَّهُۥ لَيَــُٔوسٌ كَفُورٌ
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے
Surah 17 : Ayat 83
وَإِذَآ أَنْعَمْنَا عَلَى ٱلْإِنسَـٰنِ أَعْرَضَ وَنَـَٔـا بِجَانِبِهِۦۖ وَإِذَا مَسَّهُ ٱلشَّرُّ كَانَ يَــُٔوسًا
انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے